(24 نیوز )کرکٹ کی دنیا میں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے موجد فرینک ڈک ورتھ ا نتقال کر گئے ۔
کرکٹ میں ڈی ایل ایس طریقہ کار کے شریک موجد فرینک ڈک ورتھ 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے، واضح رہے کہ انگلش ماہر شماریات نے ٹونی لیوس کے ساتھ مل کر ڈی ایل میتھڈ تیار کیا تھا،انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈک ورتھ لیوس میتھڈ پہلی بار 1997 میں استعمال کیا گیا تھا۔
ڈی ایل ایس میتھڈ ہے کیا ؟
کھیل کے اگر نتائج نہ ہوں تو شاید اس کی دلچسپی ہی باقی نہ رہے۔ کھیل کا اصل لطف اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب دو برابر کے حریف آپس میں بر سر پیکار ہوں اور ایک زبردست کشمکش کے بعد ہی کسی کے حصہ میں فتح یا شکست آئے۔ تاہم کبھی کبھی چند ناگزیر وجوہات کے سبب روایتی طور پرنتائج تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں مختلف کھیلوں میں جیت یا ہار کے حتمی فیصلہ تک رسائی کے لئے غیر روایتی طریقے اور قانون مرتب کئے گئے ہیں۔ کرکٹ میں اسی طریقہ کو ہم ڈک وَرتھ لوئس (Duckworth-Lewis) یا D/L کے نام سے جانتے ہیں۔اس کا استعمال بارش یا خراب موسم سے متاثرہ میچ میں عام طور پر دوسری اننگز میں مقررہ ہدف کا تعاقب کر رہی ٹیم کے لئے ترمیم شدہ ہدف کا حساب لگانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے موجد برطانیہ کے فرینک ڈک ورتھ (Frank Duckworth) اور ٹونی لوئس (Tony Lewis) ہیں۔اس قانون کو پہلی مرتبہ 1996-97ء میں زمبابوے اور انگلستان کے درمیان کھیلے گئے میچ میں آزمایا گیا جسے زمبابوے نے 7رنز سے جیتا تھا۔ بعد میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے باضابطہ طور پر اسے 2001ء سے بین الاقوامی ایک روزہ مقابلوں میں نافذ کر دیا اور اب اسے ٹی 20 مقابلوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ ڈک ورتھ لوئس کافی پیچیدہ قانون ہے جسے عام انسان نہیں سمجھ سکتا۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کے کرکٹ کپتان بھی کئی دفعہ اس قانون کو نہ سمجھ پانے کی شکایت کر چکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لئے علم ریاضی کی کسی اعلیٰ ڈگری کی ضرورت نہیں۔ بلکہ چند اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر معمولی ضرب اور تقسیم کے ذریعہ اس کے اصول کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
ڈی/ایل کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ کوئی بھی ٹیم رنز کے حصول کے لئے دو ذرائع (Resources) کا استعمال کرتی ہے۔پہلا یہ کہ ٹیم کے پاس کھیلنے کے لئے کتنے اوورز بچے ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس کی کتنی وکٹیں محفوظ ہیں۔ ان دونوں ذرائع میں سے کسی ایک میں بھی کمی واقع ہونے کی صورت میں ٹیم کی رنز بنانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اگر وکٹیں محفوظ ہیں اور اوورز کم ہیں تو زیادہ رنز بنانے یا مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے امکانات کم ہو جائیں گے یا اگر وکٹیں کم ہیں اور اوورز موجود ہیں تو ایسی صورت میں بھی اس بات کی امید کم ہو جاتی ہے کہ نئے آنے والے بلے باز کم اوورز میں زیادہ رن اسکور کر پائیں گے یا مطلوبہ ہدف کو عبور کر لیں گے۔ لہٰذا ٹیم کی رن اسکور کرنے کی صلاحیت بنیادی طور پر مذکورہ ذرائع (Resources) کے مجموعہ پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ ذرائع جس تناسب میں موجود ہوں گے مطلوبہ ہدف کو اتنی ہی آسانی سے عبور کیا جا سکے گا۔ ڈک ورتھ اور لوئس نے ان ذرائع کے مجموعہ کے فیصد (Percentage) کو ایک ٹیبل میں پیش کیا ہے۔ یہ ٹیبل وکٹوں کے نقصانات اور اوورز کے کم ہونے کی وجہ سے ذرائع (Resources) میں واقع ہونے والی کمی کے فیصد کو ظاہر کرتا ہے۔
جب کسی میچ میں اس کی شروعات کے بعد کسی وجہ سے تخفیف کی جاتی ہے تو لامحالہ ایک یا دونوں ٹیموں کے ذرائع کو نقصان ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ترمیم شدہ ہدف کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ڈی/ایل موجود ذرائع یا بچے ہوئے ذرائع کو مد نظر رکھ کر اس ہدف کا حساب لگاتا ہے۔ اگر میچ میں دوسری اننگ کے دوران خلل پیدا ہوا ہے تو ہدف میں تخفیف کی جاتی ہے اور اگر پہلی اننگ کے دوران میچ روکنا پڑا ہے تو ہدف میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ آئی سی سی کے ضابطہ کے مطابق ڈی/ایل کا استعمال اسی وقت کیا جاتا ہے جب دونوں ٹیمیں کم از کم20اوورز کا کھیل مکمل کر چکی ہوں۔ ٹیبل کی مدد سے حاصل کئے گئے ذرائع کے فیصد کی بنیاد پر نئے ہدف کا تعین کیا جاتا ہے جسے پار اسکور (Par Score) کہتے ہیں۔ یہ عام طور پر اعشاریہ (Fraction) میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگر دوسری اننگز میں بلے بازی کرنے والی ٹیم اس ہدف سے آگے نکل چکی ہوتی ہے تو اسے فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل جدول کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم ڈی/ایل کے اِس اصول کو مزید بہتر طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں۔ جب 50اوورز کا مکمل کھیل باقی ہے اور بلے بازی کرنے والی ٹیم کو ایک بھی وکٹ کا نقصان نہیں ہوا ہے تو 100فیصد ذرائع (Resource percentage) موجود ہیں۔ وہیں 10اوورز کی موجودگی اور 9وکٹوں کے نقصان کے بعد یہ فیصد کم ہو کر7.5 پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں قارئین کی آسانی کے لئے چھوٹا سا خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میچوں میں تفصیلی نقشہ کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ہر اوور ، ہر گیند اور ہر وکٹ کے نقصان کے ساتھ ساتھ ذرائع کے فیصد میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ میچ ریفری کمپیوٹر پروگرامنگ کی مدد سے ہر گیند پر اس کا حساب کرتے رہتے ہیں۔
آئیے اب اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
فرض کیجئے 50اوورز کے میچ میں کسی ٹیم نے 20اوورز میں 2وکٹیں کھو دیں۔ ٹیبل کے حساب سے بچے ہوئے 30 اوورز میں ٹیم کے پاس ذرائع کا 68.2 فیصد موجود ہے۔
اب مان لیجئے کسی وجہ سے 10 اوورز کا کھیل نہیں ہو پاتا ہے۔ میچ دوبارہ شروع ہونے کے بعد 20 اوورز اب بھی باقی ہیں اور ظاہر ہے بلے بازی کرنے والی ٹیم کو ابھی بھی دو ہی وکٹوں کا نقصان ہے۔ ٹیبل کے حساب سے اب ذرائع کا 54.0 فیصد بچ جاتا ہے۔ لہٰذا کھیل میں رکاوٹ کی وجہ سے بلے بازی کرنے والی ٹیم کو 68.2-54.0 = 14.2% کا نقصان ہوا۔
100%ذرائع سے اننگ کی شروعات کے بعد14.2%کا خسارہ ہونے کے سبب بلے بازی کرنے والی ٹیم کے پاس100 – 14.2 = 85.8%ذرائع بچ جاتے ہیں۔
ترمیم شدہ ہدف کے تعین کے لئے دونوں ٹیموں کے بچے ہوئے ذرائع کے فیصد کا حساب لگانے کے بعد اس کے تناسب(Ratio)سے ہدف میں تخفیف یا اضافہ کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر:
ٹیم۔الف نے مقررہ 50 اوورز میں 250 رنز بنائے۔ ٹیم۔ب 40 اوورز میں 199 کے اسکور تک پہنچنے میں 5 وکٹ کھو دیتی ہے۔ بارش کی وجہ سے کھیل روک دیا جاتا اور دوبارہ شروع نہیں ہو پاتا۔ ایسی صورت میں ڈی/ایل کے مطابق مندرجہ ذیل طریقہ سے ہار یا جیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ٹیم۔الف نے اپنی اننگ بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل 50اوورزکھیلی
اس لئے موجود ذرائع کا فیصد= 100
ٹیم۔ب کی اننگ کی شروعات کے وقت موجود ذرائع کا فیصد= 100
40 اوورز کے بعد ٹیم۔ب کے پاس 10 اوورز بچے اور اس نے 5 وکٹیں گنوائیں
ٹیبل کے حساب سے ذرائع کا فیصد=27.5
چونکہ کھیل دوبارہ شروع نہیں ہوگا اس لئے ٹیم۔ب کے پاس اب ذرائع موجود نہیں ہیں
لہٰذا ٹیم۔ب کے لئے ذرائع کا فیصد100 – 27.5 = 72.5
ٹیم۔ ب کے پاس ٹیم الف کے بہ نسبت کم ذرائع ہیں اس لئے مطلوبہ ہدف میں 72.5/100 کے تناسب سے تخفیف کی جائے گی۔
ٹیم الف نے 250 اسکور کیا تھا، اس لئے ٹیم۔ب کا نیا ہدف ہوگا 250×72.5/100 = 181.25
چونکہ کھیل اب دوبارہ شروع نہیں ہو سکے گا اس لئے جیت یا ہار کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا جائے گا کہ ترمیم شدہ ہدف ٹیم۔ الف کے ذریعہ اسکور کئے گئے رنز سے زیادہ ہے یا کم۔
ٹیم۔ب نے کھیل کے ختم ہونے تک199 رنز بنا لیے تھے جو ترمیم شدہ ہدف سے 17.75 رنز زیادہ ہے اس لئے ٹیم۔ب کو 18 رنز سے فاتح قرار دیا جائے گا۔
اب ایک دوسری مثال لیجئے :
40 اوورز کے کسی میچ میں ٹیم۔ الف نے 200 رنز اسکور کیے۔ٹیم۔ ب نے 30اوورزمیں 5 وکٹوں کے نقصان پر 140 رنز بنائے۔ اس درمیان بارش ہو گئی اور5 اوورز کے وقفہ کے بعد ہی میچ شروع کیا جا سکا۔ ایسی صورت میں ٹیم۔ب کے لئے ڈی/ایل کے حساب سے ترمیم شدہ ہدف کا تعین کچھ اس طرح کیا جائے گا۔
40 اوورز کے میچ میں ٹیم۔ الف کی اننگ کی شروعات کے وقت موجود ذرائع کا فیصد=90.3
اسی طرح ٹیم۔ب کی اننگ کی شروعات کے وقت موجود ذرائع کا فیصد = 90.3
30 اوورز کے اختتام پر ٹیم۔ب کے پاس 10اوورز بچتے ہیں اور اسے 5وکٹوں کا خسارہ ہوا
ٹیبل کے حساب سے ٹیم۔ب کے لئے میچ روکے جانے کے وقت تک بچے ہوئے ذرائع کا فیصد = 27.5
میچ روکے جانے جانے سے 5اوور ز کا نقصان ہوا اس لئے اب5اوورز ہی باقی بچے
ٹیبل کے حساب سے میچ دوبارہ شروع کئے جانے کے وقت بچے ہوئے ذرائع کا فیصد = 16.4
اس لئے ٹیم۔ب کو ذرائع کے فیصد میں 27.5 – 16.4 = 11.1% کا خسارہ ہوا
لہذا ٹیم۔ب کے لئے بچے ہوئے ذرائع کا فیصد 90.3 – 11.1 = 79.2
ٹیم۔ب کے پاس ٹیم الف کی بہ نسبت کم ذرائع ہیں اس لئے مطلوبہ ہدف میں 79.2/90.3 کے تناسب سے تخفیف کی جائے گی۔
ٹیم الف نے 200اسکور کیا تھا، اس لئے ٹیم۔ب کا نیا ہدف ہوگا 200 x 79.2/90.3 = 175.42
ٹیم۔ب کوجیت کے لئے 176 رنز بنانے ہوں گے۔ یعنی اب بچے ہوئے 5 اوورز میں ٹیم۔ب کو مزید 36 رنز درکار ہوں گے اور اس کے پاس 5وکٹیں محفوظ ہوں گی۔
مذکورہ دونوں مثالوں پر اگر غور کیا جائے تو عقلی اور منطقی اعتبار سے بھی ترمیم شدہ ہدف میں کوئی ناانصافی نظر نہیں آتی۔ پہلی مثال میں یقینی طور پر ٹیم۔ب جیت کی طرف گامزن تھی۔ اگر بارش رکاوٹ نہ بنتی تو زیادہ اُمید یہی تھی کہ ٹیم۔ب جیت جاتی۔ا سی طرح دوسری مثال میں بھی ٹیم۔ب کو دیا گیا نیا ہدف حالات کے اعتبار سے بالکل مناسب نظر آتا ہے۔
اس کے باوجودڈک ورتھ لوئس کے ذریعہ حاصل کئے گئے نتائج کی درستگی پر کافی تنقید ہوئی ہے ۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ڈک ورتھ لوئس میں اوورز اور وکٹوں کے ذرائع کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ جبکہ اگر ٹیم کے پاس وکٹیں محفوظ ہوں تو کم اووروں میں بھی بڑے ہدف کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ طریقہ عام فہم نہیں ہے اور اس کی پیچیدگی کی وجہ سے کئی دفعہ ٹیموں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جیسا کہ 20 مارچ 2009ء کو انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہوئے میچ میں ویسٹ انڈیز کے کوچ جان ڈائسن نے اپنے کھلاڑیوں کو خراب روشنی کی وجہ سے بلا لیا۔ ان کو لگا کہ ڈی/ایل کے حساب سے ان کی ٹیم کو جیت دے دی جائے گی۔ جبکہ آخری گیند پر ان کی ٹیم کا کھلاڑی آؤٹ ہو گیا اور اس ایک وکٹ کے گرنے کی وجہ سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے حصہ میں ہار آئی۔
بھارت و انگلستان کے درمیان ہوئے حال ہی میں کھیلے گئے چوتھے ایک روزہ مقابلے میں بھی کچھ اسی قسم کا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ بارش کی بار بار مداخلت کے سبب انگلینڈ کے بلے بازوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ڈک ورتھ لوئس کو مد نظر رکھ کر شاٹ کھیلیں یا اصل ہدف کو۔اسی پس و پیش میں انگلینڈ نے آخری دفعہ بارش کی وجہ سے میچ روکے جانے سے قبل اپنی دو وکٹیں گنوا دیں اور میچ ڈی/ایل کے مطابق ٹائی ہو گیا۔اگر انگلینڈ یہ دو وکٹیں بچا لیتا تو اس کے حصہ میں جیت آ جاتی۔
ان اعتراضات کے باوجود ڈک ورتھ لوئس طریقہ بہت حد تک قابل اعتماد ہے۔ اس سے قبل جتنے طریقہ استعمال کئے جاتے تھے ان میں کئی خامیاں تھیں۔ مثال کے طور پر1992کے عالمی کپ میں “Best Scoring Overs” کے ضابطہ کے تحت جنوبی افریقہ کوآخری گیند پر 20رنز کا ہدف دے دیا گیا تھا۔ جبکہ ایک گیند پر زیادہ سے زیادہ6رنز ہی بنائے جا سکتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے جب اس میچ کو روکا گیا تھا تب جنوبی افریقہ کو13گیندوں پر 22رنز درکار تھے۔ اگر اس وقت ڈک ورتھ لوئس کے حساب سے جنوبی افریقہ کے لئے ترمیم شدہ ہدف کا تعین کیا جاتا تو اسے آخری گیند پر5رنز درکار ہوتے۔ جو کسی حد تک قابل عمل ہوتا۔