|
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے ایک معروف کھلاڑی شکیب الحسن، قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور منتخب ہونے کے بعد جنوری میں قانون ساز رکن کے طور پر حلف اٹھایا۔
ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف شروع ہونے والے طلبا کے مظاہروں نے جولائی میں بنگلہ دیش کے روزمرہ کے معمولات کو معطل کر دیا اور اس دوران تشدد کے واقعات میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ حالات کنٹرول سے باہر ہونے کے بعد شیخ حسینہ اپنے عہدے سے استعفی دے کر بھارت فرار ہو گئیں۔
حکومت کے خاتمے کے بعد قانون ساز اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور اس کے ساتھ شکیب الحسن کی رکنیت بھی ختم ہو گئی۔
شکیب الحسن نے ایک ایسے متنازع انتخابات میں نشست جیتی تھی جس کا بنگلہ دیش کی زیادہ تر پارٹیوں بائیکاٹ کیا تھا۔ حزب اختلاف کے زیادہ تر رہنما جیلوں میں بند تھے اور وہ ایک طرح سے یک طرفہ انتخابات تھے۔
دنیا کے کئی ملکوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے تھے۔
جن دنوں بنگلہ دیش میں یہ واقعات ہو رہے تھے اور 15 سال سے قائم شیخ حسینہ کی حکومت زمین بوس ہو رہی تھی، شکیب الحسن ملک سے باہر کینیڈا میں تھے۔
حکومت کے خاتمے کے بعد مشتعل اور برہم ہجوموں نے عوامی لیگ کے دفاتر اور عہدے داروں کے گھروں اور کاروباروں پر حملے کیے اور وہاں لوٹ مار اور نذر آتش کرنے کے درجنوں واقعات ہوئے۔
عوامی لیگ کے بہت سے لیڈر، کارکن اور اس جماعت کے حامی روپوش ہو گئے یا ملک سے باہر چلے گئے۔
حکومت کے خاتمے کے بعد معروف شخصیت محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔ ان کی کابینہ میں وہ طالب علم رہنما بھی شامل ہیں جنہوں نے شیخ حسینہ کے اقتدار کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی۔
ان میں سے ایک طالب علم رہنما کا نام آصف محمود ہے۔ ان کی عمر 26 سال ہے اور وہ عبوری حکومت میں کھیلوں کے وزیر ہیں۔
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے پاکستان کے دورے کے موقع پر آصف محمود کو کھلاڑیوں کی فہرست پیش کی گئی۔ انہوں نے شکیب الحسن کو اس کے باوجود ٹیم کے ساتھ پاکستان میں کھیلنے کی اجازت دے دی کہ وہ عوامی لیگ کے رکن تھے اور شیخ حسنہ سے ان کے روابط تھے۔
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ایک ڈائریکٹر افتخار احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے کھیلوں کے ایڈوائزر کو ٹیم کے ارکان کے نام پیش کیےتھے۔ انہوں نے شکیب کو شامل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ٹیم میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے۔
اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شکیب کو، جن کی عمر 37 سال ہے، بدھ کے روز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پریکٹس کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد سے انہیں بنگلہ دیش میں نہیں دیکھا گیا اور وہ کینیڈا سے سیدھے پاکستان چلے گئے جہاں وہ پاکستان کے خلاف مقابلوں میں بنگلہ دیش کی نمائندگی کریں گے۔
شکیب عموماً فیس بک پر بہت فعال دکھائی دیتے ہیں، لیکن 14 جولائی کے بعد انہوں نے اپنے پیج پر کچھ پوسٹ نہیں کیا۔
14 جولائی سے دو دن کے بعد بنگلہ دیش میں پولیس کی فائرنگ سے طالب علموں کی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ایک سابق رکن رفیق الاسلام، جنہوں نے شیخ حسینہ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے کرکٹ بورڈ میں خدمات سرانجام دیں تھیں، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شکیب ایک قانون ساز ہونے کے ناطے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی ذمہ داری سے بری الزمہ نہیں ہو سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب طالب علم مارے جا رہے تھے تو انہوں نے اپنے فیس بک پیچ پر کبھی کچھ بھی نہیں کہا۔ جب کہ ان میں سے بہت سے طالب علم انہیں اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔ انہیں پہلے گھر آنا چاہیے تھا اور یہ وضاحت دینی چاہیے تھی کہ وہ خاموش کیوں رہے۔
رفیق الاسلام نے منگل کے روز شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر مظاہرے میں شرکت کی۔
انہوں نے دیگر کھیلوں کے منتظمین کے ساتھ مل کر کرکٹ بورڈ کے ارکان پر شیح حسینہ کے وفادار ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔
اس گروپ نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بدانتظامی، آمرانہ طرز عمل اور بے لگام کرپشن نے بنگلہ دیش کو عالمی کرکٹ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)