|
مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کی گونج اس وقت میدان جنگ سے کھیلوں کے میدان تک سنائی دی جب یورپ کے پر امن ملک نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی ٹیم کے ایک فٹبال میچ کے بعد پر تشدد واقعات پھوٹ پڑے۔ امریکی صدر بائیڈن نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔
شہر کے مختلف مقامات پر ہونے والے تشدد کے واقعات کے بعد پانچ زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا جبکہ پولیس نے 62 لوگوں کو گرفتار کر لیا۔
ایمسٹرڈیم شہر کی پولیس نے کہا کہ فسادیوں نے اپنی ٹیم کی حمایت کرنے والے اسرائیلی شائقین کو نشانہ بنایا۔
امریکی صدر بائیڈن نے ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی فٹ بال کے شائقین پر رات کو ہونے والے حملوں کی مذمت کرتےہوئے X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ امریکہ اسرائیل اور ڈچ حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
انہوں نے کہا،”ہمیں یہود دشمنی جہاں کہیں بھی سامنے آتی ہے، اسکے خلاف لڑنا چاہیے۔”
مشرق وسطی میں ایک سال سے کئی محاذوں پر جاری جنگ کے تناظر میں اسرائیل ٹیموں کے کئی ملکوں میں مقابلوں کے وقت سلامتی کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
جمعرات کو ہونے والے یورپا لیگ کے ایجیکس اور مکابی تل ابیب ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچ کے اختتام پر تشدد کے کئی واقعات کے بعد پولیس نے کہا کہ اس کی تحقیقات جاری ہیں۔
نیدرلینڈز اور اسرائیل کے رہنماؤں، اور یہودی گروپوں نے تشدد کی مذمت کی جبکہ اسرائیلی وزیر خارجہ فوری دورے پر نیدر لینڈز روانہ ہو گئے۔۔
حکام کے بقول اسرائیلی حامیوں پر شہر کے متعدد علاقوں میں حملے کیے گئے۔ پولیس نے کئی بار مداخلت کر کے اسرائیلی حامیوں کو ان کے ہوٹلوں تک پہنچایا۔
ایمسٹرڈیم شہر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کیے جانے کے باوجود اسرائیل کے حامی زخمی ہو ئے۔
فلسطین فٹ بال ایسوسی ایشن کا موقف
ایمسٹرڈیم میں ہونے والے واقعات پر فلسطین فٹ بال ایسوسی ایشن کا موقف مختلف تھا،اس نے کہا کہ تشدد “مکابی تل ابیب کے شائقین کی طرف سے تشدد کے لیے افسوسناک طور پر اکسانے، فلسطینی مخالف نسل پرستی، اور اسلامو فوبیاکے اظہار کے ساتھ شروع ہوا تھا۔
اس کاکہنا ہے کہ اسرائیلی شائقین نے ان گھروں اور دکانوں پر حملہ کیا تھاجہاں فلسطینی پرچم لگا تھا۔ فلسطینی فٹ بال ایسوسی ایشن کو شکایت ہے کہ وہ اب بھی اپنے پیش کیے گئے وسیع شواہد کے جواب میں، فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا کی جانب سےکسی “ٹھوس کارروائی” کا انتظار کر رہی ہے۔
ایمسٹرڈیم کے پولیس چیف نے پی ایف اے کے الزامات کی کچھ حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میچ سے 24 گھنٹے قبل بدھ کو “دونوں طرف سے واقعات” سامنےآئے تھے۔
اسرائیلی ٹیموں کے لیے سیکیوریٹی کےمسائل
سکیوریٹی کے مسائل کے باعث ہمسایہ ملک بیلجیم نے ستمبر میں اسرائیلی ٹیم کے خلاف نیشنز لیگ کے ایک مقابلے کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس مقابلے کو بعد میں ہنگری میں منعقد کرایا گیا لیکن وہاں اسٹیڈیم میں کوئی بھی شائق موجود نہیں تھا۔
پولیس چیف پیٹر ہولا نے کہا کہ فسادیوں کے ہتھکنڈوں نے حملوں کو روکنا “غیر معمولی” مشکل بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ 800 افسران کو تعینات کیا گیا تھا، جو ایمسٹرڈیم کے لیے بہت بڑی تعداد تھی، انہوں نے مزید کہا کہ “ہم نے میچ کی تیاری میں کئی ہفتے گزارےتھے۔”
ایمسٹرڈیم کے بیان میں اسرائیل کے حامیوں کے خلاف تشدد کو ناقابل قبول قرار دیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پچھلی شب دیکھے گئے یہود مخالف رویہ کا کوئی جواز نہیں۔
شہر کی میئر فیلکا حلسیما نے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ احتجاج میں شامل افراد اور اسرائیلکے حامیوں کے بیچ تصادم ہو گا۔
ایمسٹرڈیم کے حکام نے کہا ہے کہ آئندہ دنوں میں شہر میں یہودیوں کے اداروں کی حفاظت کے لیے سکیوریٹی سخت کر دی جا ئے گی اور شہر میں اضافی پولیس گشت کرے گی۔
خیال رہے کہ ایمسٹرڈیم میں یہودی برادری کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈائری لکھنے والی لڑکی این فرینک اور اس کا خاندان نازی قابضوں سے بچ کر یہیں رہ رہے تھے۔
نیدرلینڈز کے وزیر اعظم ڈک شوف نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ وہ تشدد کے واقعات کی رپورٹس سے خوف زدہ ہیں۔ “اسرائیلیوں پر یہود مخالف حملے بالکل ناقابل قبول ہیں۔ “
ڈچ رہنما نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے بات کی ہے اور زور دیا کہ مجرموں تلاش کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔
ان کے بقول اب شہر میں سکون ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیی تنظیم کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر میں بھڑکنے والی جنگ میں غزہ کے حکام کے مطابق اب تک وہاں 43,500 لوگ مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
جنگ کا باعث بننے والے حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے میں 1200 افراد ہلاک ہو ئے تھے جن میں زیادہ تر شہری شامل تھے جبکہ جنگجوؤں نے تقریبا 250 افراد کا یرغمال بنا لیا تھا۔
غزہ کے علاوہ اسرائیل کی لبنان میں فعال حزب اللہ عسکریت پسند تنطیم سے بھی جنگ جاری ہے۔
اس کے علاوہ ایران اور اسرائیل نے بھی ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں اور خطے بھر میں تنازعات کی وجہ سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے اے پی،رائٹرز اوراے ایف پی سے لی گئی ہیں۔)