|
بھارت اور چین کے درمیان انکی ہمالائی سرحد کے ساتھ ساڑھے چار سال کے تعطل کے بعد 2024میں کشیدگی میں اس وقت کمی دیکھنے میں آئی جب دونوں فریقوں نے دو فلیش پوائنٹس سے اپنے فوجی واپس بلا لیے ۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ایشیائی طاقتوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی بحالی کی راہ میں بد اعتمادی بدستور اہم رکاوٹ ہے ۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر نے اس ماہ پارلیمنٹ کو بتایا کہ فوجیوں کی واپسی نے نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو قدرے بہتری کی سمت گامزن کر دیا ہے ۔ لیکن انہوں نے سرحد پر استحکام کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا ’’ ہم اس بارے میں واضح ہیں کہ ہمارے تعلقات کی بہتری کے لیے سرحدی علاقے میں امن اور سکون برقرار رکھنا ایک پیشگی شرط ہے۔‘‘
اگرچہ دونوں ملکوں کے فوجی متنازع پٹیوں کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی ختم کر کے واپس جا چکے ہیں ، تاہم ہزارو ں فوجی ابھی تک ہمالیہ کے علاقوں میں پانچواں موسم سرما گزار رہے ہیں اور فائٹر جیٹ طیارے بدستور سرحد کے ساتھ متعین ہیں۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر سورن سنگھ نے کہا ہے کہ، ’’ سرحد پر چار سال تک جنگ کی تیاری کا ایک موڈ رہا ہے ، اس لیے انہیں امن کے دور کی تعیناتی کی حالت میں واپس لانا ایک آپریشنل ،مینٹل، سائیکلوجیکل اور اسٹرکچرل سر گرمی ہوگی ، جس میں کچھ وقت لگے گا‘‘۔
بھارت اور چین کے درمیان ایک غیر واضح طور متعین 3488 کلومیٹر سرحد پر دونوں کے درمیان تنازع جاری ہے ۔ ان کے درمیان کشیدگی میں 2020میں اس جھڑپ کے بعد اضافہ ہوا تھا جس میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
سرحدی تنازعے پر اعلیٰ سطح پر بات چیت کے لیے سفارتی ڈائیلاگ پانچ سال بعد، گزشتہ ہفتے بحال ہوئے تھے۔ چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ،’’ چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے درمیان بیجنگ میں ایک ملاقات کے بعد، دونوں فریقوں نے ایسے حل تلاش کرنے سے اپنی وابستگی کی توثیق کی جو ، منصفانہ، معقول اور دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ‘‘
دونوں ملکوں نے بھارتی زائرین کی جانب سے تبت کے سفر کی بحالی اور ایک پہاڑی درے پر سرحدی تجارت دوبارہ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
بھارت اور چین کے درمیان ایک غیر واضح طور متعین 3488 کلومیٹر سرحد پر دونوں کے درمیان تنازع جاری ہے ۔ ان کے درمیان کشیدگی میں 2020میں اس جھڑپ کے بعد اضافہ ہوا تھا جس میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان اکتوبر میں روس میں منعقدہ برکس سمٹ کے موقع پر ایک الگ اجلاس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے حالات سازگار ہوئےتھے ۔
چین کے وزیر خارجہ لی جیان نے گزشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ، بیجنگ بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد بڑھانے اور اختلافات دور کر نے کی غرض سےکام کرنے کے لئے تیار ہے ۔
نئی دہلی کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت محتاط طریقے سے آگے بڑھے گا۔ سنگھ نے کہا،’’ بھارت چاہتا ہے کہ پہلے سرحد کے مسائل حل ہوں، اور پھر چین کے ساتھ تعلقات مجموعی طور پر ، بڑے پیمانے پر اور معمول کے مطابق واپس لائے جائیں۔‘‘
نئی دہلی میں اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ریسرچ کے شعبے کے نائب صدر ہرش پنت کے مطابق، ’’اگرچہ کسی کو بھی یہ توقع نہیں کرنی چاہئیےکہ سیاسی تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی آئے گی، اقتصادی تعلقات شاید پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کریں گے اور شاید بھارت اپنی منڈیاں کھولنے ، یا کچھ سیکٹرز کھولنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ لبرل ہوگا ۔‘‘
چینی وزیر خارجہ وانگ نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ریو ڈی جنیرو میں بیس ملکوں کے گروپ کے اجلاس کے موقع پر الگ سے ایک میٹنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان پینڈیمک کے دوران معطل ہونے والی براہ راست پروازوں کی بحالی اور چینی شہریوں کے لیے ویزوں میں نرمی کے لیے کہا تھا۔
وانگ نے جے شنکر سے کہا،’’ چین اور بھارت کے مشترکہ مفادات ان کے درمیان اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی ترقی کو ایک موقع سمجھنا چاہئیے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی میں کمی نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہو گی جو حالیہ برسوں میں بیجنگ کے جارحانہ عزائم پر ان کے مشترکہ خدشات کے باعث مضبوط ہو ئے ہیں۔
نئی دہلی اپنی ہمالائی سرحدکے علاوہ ،بحرہند میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کی وجہ سے بھی فکر مند ہے۔ بیجنگ سر ی لنکا ،اور پاکستان میں بندر گاہیں تعمیر کر چکا ہے اور ایک بندر گاہ میانمار میں تعمیر کر رہا ہے ۔
پنت نے کہا، ’’ بھارت اور امریکہ ، دونوں ایک خاص قسم کا انڈو پیسیفک ، ایک خاص قسم کاجغرافیہ، اسٹریٹیجک جغرافیہ چاہتے ہیں ،جو آزاد ، متوازن ، کھلا اور منصفانہ ہو ،جو جامع بھی ہو اور، بعض صورتوں میں یہ تصور تعلقات کو مسلسل بہتر بناتے رہیں گے ۔‘‘
دونوں ملک دفاع سے لے کر ہائی ٹیکنالوجی تک کے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے ۔
نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں کچھ کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ مثال کے طور پر بھارت ، روس پرنافذ کی گئی امریکی پابندیوں میں شامل نہیں ہوا اور اس نے ماسکو سے خام تیل کی بڑی مقدار میں درآمد کو بر قرار رکھا ہے ۔
حال ہی میں جے شنکر نے نئی دہلی میں ایک فارن پالیسی میگزین ’انڈیاز ورلڈ‘ کی لانچنگ کے موقع پر کہا، کہ بھارت اور امریکہ اگر ہر مسئلے پر متفق نہ ہوں تو بھی ان کے درمیان تعلقات مسلسل گہرے ہوتے رہیں ۔
جے شنکر نے کہا ،’’ ہماری اس بارے میں بہت زیادہ دیانتدارانہ گفت و شنید ہوئی ہے کہ ہم کن مسائل پر اتفاق رائے رکھتے ہیں اور کن پر نہیں رکھتے ۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت امریکہ اور کواڈز جیسے فورمز میں دوسرے مغربی ملکوں کے ساتھ مسلسل منسلک رہے گا ۔
گوکھلے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکس میں جیو پولیٹکس کے اسسٹنٹ پروفیسر سنکلپ گرجر نے کہا “یہ دونوں فریقوں کے لیے جیت ہی جیت کی صورتحال ہے ۔ چین بھارت اور امریکہ دونوں کے لیے ایک اسٹرکچرل چیلنج ہے ۔ لہذا ،اس حقیقت سے قطع نظر کہ آیا کوئی بحران ہے یا نہیں ہے ، بھارت اور چین اپنے تعلقات کو مضبوط تر بناتے رہیں گے ۔‘‘