|
جمعے کو ٹرکوں نے غزہ کی پٹی کے قریب امریکہ کے تعمیر کردہ ایک عارضی گھاٹ کے ذریعے امدادی سامان غزہ پہنچانا شروع کر دیاہےجہاں اقوام متحدہ کے مطابق، لاکھوں لوگوں کو قحط کا خطرہ ہے۔
امریکی سنٹرل کمان کے مطابق، غزہ کے لیےانسانی امداد لے جانے والی گاڑیاں جمعے کی صبح 9 بجے گھاٹ کے راستے ساحل پر جانا شروع ہوئی تھیں۔
امریکی اہل کاروں کے مطابق اس تیرتے ہوئے گھاٹ کو، امریکی فوجیوں نے غزہ لانے سے پہلے اشدود کی اسرائیلی بندرگاہ پر جوڑا تھااور اس ہفتے غزہ کے ساحل پر منتقل کیا گیا ہے تاکہ متعدد ممالک اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی امداد کی ترسیل کی جاسکے۔
امریکہ نے کہا کہ کوئی فوجی ساحل پر موجود نہیں ہے۔
امریکی انتظامیہ کےعہدے داروں نے بتایا ہے کہ رسد کےگھاٹ پر پہنچنے سے پہلے قبرص میں اس کی اسرائیل کی جانب سے سیکیورٹی چیکنگ ہوگی اور غزہ جاتے ہوئے اسے اضافی اسرائیلی چوکیوں سے گزرنا پڑے گا۔
اقوام متحدہ
تاہم، اقوام متحدہ نے کہا کہ زمینی راستے سے آنے والے ٹرکوں کے قافلے غزہ میں امداد کی ترسیل کا “سب سے زیادہ قابل عمل اور موثر” طریقہ ہیں۔
“قحط کی ہولناکی سے بچنے کے لیے، ہمیں غزہ کے لوگوں تک پہنچنے کے لیے تیز ترین اور واضح راستہ استعمال کرنا چاہیے۔ اور اس کے لیے ہمیں زمینی راستے سے رسائی کی ضرورت ہے۔” ادارے کےنائب ترجمان فرحان حق نے کہا۔
غزہ کے محصور علاقے میں شدید لڑائیوں نے امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالی ہے، اور امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ کارکنوں کے لیے وہاں محفوظ طریقے سے امداد پہنچا نے کیلئے حالات بہت خطرناک اور غیر مستحکم ہیں۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ جیسے جیسے اسرائیل اور حماس جنگ تیزی پکڑ رہی ہے، امدادی گروپ اپنی کارروائیاں روکنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
ایک یورپی خیراتی ادارے کے سربراہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ “بہت زیادہ ضرورتیں ہیں” جو لازمی طور پر بڑھیں گی، جب کہ وہاں “کم سے کم ہوتی رسائی” ہے۔
پیرس میں قائم غیر سرکاری تنظیم ہیومینٹی اینڈ انکلوژن ان دی فلسطینی ٹیریٹری، کے ایک کارکن نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ “سیکیورٹی کے حالات بہت ہی غیر مستحکم ہیں ہم اپنی ٹیموں کو باہر نہیں لا سکتے۔”
رفح کراسنگ، مصر کی سرحد پر ایک اہم انسانی امدادی گزر گاہ ہے۔ اسرائیلی فوج کے 7 مئی کو رفح شہر میں “محدود” آپریشن شروع کرنےکے بعد اس گزر گاہ کو بند کر دیا گیا ہے، جس سے غزہ کے شمال کی جانب حفاظت کے متلاشی فلسطینیوں کی نقل مکانی شروع ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی گروپوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں امداد کی ترسیل کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد سے تباہ ہو چکا ہے۔
اسرائیل
دوسری طرف اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے کوششیں تیز کر رہا ہے اور فوج نےبتایا کہ جمعرات کو 365 امدادی ٹرک آٹا اور ایندھن لے کر کرم شالوم اور ایریز کراسنگ پوائنٹس سے داخل ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ سیکڑوں خیمے بھی پہنچائے گئےہیں جو رفح سے المواسی کے علاقے میں منتقل ہونے والوں کے لیے ہیں۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہاکہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق، زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے انسانی امداد کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو سات ماہ ہو چکے ہیں جس دوران 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسرائیلی فورسز مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ غزہ میں کارروائیوں کے دوران 14 ہزار سے زیادہ عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔