Tuesday, December 24, 2024
ہومWorldابراہیم رئیسی کی موت: ایران میں صدارت کے ممکنہ امیدوار کون کون...

ابراہیم رئیسی کی موت: ایران میں صدارت کے ممکنہ امیدوار کون کون ہو سکتے ہیں؟


  • ایران میں آئندہ چار برس کے لیے صدر کا انتخاب 28 جون کو ہونے والے الیکشن کے ذریعے ہوگا۔
  • ایران کی شوریٰ نگہبان الیکشن میں حتمی امیدواروں کی فہرست الیکشن سے دو ہفتے قبل جاری کرے گی۔
  • کئی ایرانی رہنماؤں کے نام اس وقت زیرِ گردش ہیں جو الیکشن میں ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔
  • چند ایک امیدواروں نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
  • صدر کا انتخاب اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس وقت آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین کی بحث بھی ہو رہی ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد صدارت کے منصب تک پہنچنے کے لیے قدامت پسند امیدوار سامنے آ رہے ہیں۔

ایران میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے الیکشن 28 جون کو ہوں گے جس کے لیے کاغذات نامزدگی جمعرات سے جمع ہونا شروع ہوں گے۔ ممکنہ امیدوار پانچ دن تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا سکیں گے۔

انتخابات کے لیے امیدواروں کی حتمی منظوری ایران کی سب سے اعلیٰ شوریٰ نگہبان دے گی۔ شوریٰ نگہبان ملک کا ایک غیر منتخب فورم ہے جس میں زیادہ تر افراد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے وفادار ہیں۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو 19 مئی کو صوبہ مشرقی آذربائیجان میں حادثہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں صدر رئیسی، وزیرِ خارجہ حسین امیر عبدالہیان، تبریز میں نمازِ جمعہ کے امام آیت اللہ آلِ ہاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر جنرل مالک رحمتی سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایران کے آئین کے مطابق نئے صدر کا انتخاب آئندہ 50 روز میں ہونا ہے۔ اس وقت تک ایران کے اول نائب صدر محمد مخبر عبوری صدر کی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔

محمد مخبر کو بھی ابراہیم رئیسی کی طرح ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ محمد مخبر 2021 کے انتخابات میں ابراہیم رئیسی کی کامیابی کے بعد اول نائب صدر بنے تھے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے اتوار کو مختلف رپورٹس میں بتایا ہے کہ شوریٰ نگہبان صدراتی الیکشن سے دو ہفتے قبل حتمی امیدواروں کی فہرست جاری کر سکتی ہے۔

ابراہیم رئیسی 2021 میں ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے لیکن اس وقت انتخابات میں ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اُس وقت شوریٰ نگہبان نے ابراہیم رئیسی کے تمام اہم حریف امیدواروں کو انتخابات لڑنے سے روک دیا تھا۔

ایران کے قائم مقام صدر محمد مخبر پارلیمان سے خطاب کر رہے ہیں۔

ابراہیم رئیسی کے انتخاب کو کئی مبصرین آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے ان کے جانشین کی حمایت کے طور پر بھی دیکھتے تھے۔

ایران میں آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن میں ایک ممکنہ امیدوار اس وقت ملک کے قائم مقام صدر محمد مخبر ہو سکتے ہیں۔ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کے اول نائب صدر تھے اور ایران کے آئین کے مطابق صدر کے بعد ملک کا بااختیار شخص نائب صدر ہوتا ہے جب کہ صدر کی موت کی صورت میں وہ صدارت سنبھال لیتا ہے۔

ایران کی سیاست پر ایک طویل عرصے سے نظر رکھنے والے امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران (یو اے این آئی) کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن بروڈسکی کہتے ہیں کہ ان کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق انہیں ملے جلے اشارے ملے ہیں کہ محمد مخبر آئندہ صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جیسن بروڈسکی کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ایران کی شوریٰ نگہبان کن امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دیتی ہے۔

ایران کے میڈیا میں چند ممکنہ امیدواروں کے نام زیرِ گردش ہیں۔

ان جیسن بروڈسکی کا مزید کہنا تھا کہ سعید جلیلی بھی امیدواروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک سخت گیر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وہ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل (شوریٰ عالی امیت ملی) کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں جب کہ اس وقت اس کونسل میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے نمائندے ہیں۔

سعید جلیلی تہران میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔

سعید جلیلی تہران میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔

سعید جلیلی پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں صدارتی امیدوار ہوں گے۔

جیسن بروڈسکی کے مطابق سعید جیلانی ایران کے جوہری پروگرام کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کے حامی ہیں۔

ایران یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ البتہ مغربی طاقتوں کو اندیشہ ہے کہ ایران جوہری پروگرام کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

جیسن بروڈسکی کہتے ہیں کہ انتخابات میں دوسرے اہم ترین امیدوار علی لاریجانی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کی تصدیق اس وقت ہو سکے گی جب ایران کی شوریٰ نگہبان انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے۔

اس سے قبل 2021 کے صدارتی انتخابات میں علی لاریجانی کو الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ وہ الیکشن سے قبل 2020 تک ایران کی پارلیمان کے اسپیکر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔

جیسن بروڈسکی علی لاریجانی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ قابل ممکنہ صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں کیوں کہ وہ اسلامی جمہوری ایران میں متعدد اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

ان کے بقول وہ ایران کے وزیرِ ثقافت رہے ہیں۔ وہ ملک کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے ’سازمان صداوسیمای جمهوری اسلامی ایران‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری کا عہدہ ان کے پاس رہا ہے جب کہ وہ ایران کی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہے ہیں۔

دیگر صدارتی امیدواروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جیسن بروڈسکی نے کہا کہ ایران کی شاہراہوں اور شہری ترقی (روڈز اینڈ اربن ڈویلپمنٹ) کے وزیر مہرداد بذرپاش بھی صدارتی امیدواروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ وہ سابق صدر محمود احمدی نژاد کی حکومت کا حصہ بھی رہے ہیں۔

علی لاریجانی ایران کی پارلیمان کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔

علی لاریجانی ایران کی پارلیمان کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔

ان کے بقول مہرداد بذرپاش پاسدارانِ انقلاب کے ماتحت طلبہ کے لیے رضاکارانہ طور پر فوجی خدمات انجام دینے والی تنظیم ’بسیج‘ کے رکن بھی رہے ہیں۔ وہ اس نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اسلامی ایران کے بھر پور حامی ہیں اور ان کی تربیت آیت اللہ خامنہ ای کے زیرِ سایہ ہوئی ہے۔

جیسن بروڈسکی کے خیال میں سید پرویز فتاح بھی ممکنہ صدارتی امیدواروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پرویز فتاح ایک سرکاری ادارے ’ایگزیکیوشن آف امام خمینی آرڈر‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب میں بھی کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ ملک کے کئی معاشی اور فلاحی اداروں کے سربراہ کے طور پر امور سرانجام دیتے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرویز فتاح پر ان کی سرگرمیوں کے سبب امریکہ متعدد پابندیاں بھی عائد کر چکا ہے۔

ایران کے وزیر مہرداد بذرپاش (دائیں جانب) روسی ہم منصب کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد دستاویزات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

ایران کے وزیر مہرداد بذرپاش (دائیں جانب) روسی ہم منصب کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد دستاویزات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

ایران کے صدر کا انتخاب آئندہ چار برس کے لیے ہوگا۔ اس لیے جیسن بروڈسکی کے خیال میں آیت اللہ خامنہ ای اس اعلیٰ منصب پر طویل عرصے کے لیے تعیناتی کرنے والے ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ صدارت کا منصب کسی ایسے شخص کے پاس ہو جو ان کی جانشینی کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔

واضح رہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہونے والے ابراہیم رئیسی ایک سخت گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں سپریم لیڈر کا قریبی معتمد تصور کیا جاتا تھا جب کہ انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

قدامت پسند نظریات کے حامل 63 سالہ ابراہیم رئیسی 2021 میں ایران کے صدر بننے سے قبل چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ اس سے قبل وہ تین دہائیوں تک ملک کے قانونی نظام سے منسلک رہے تھے۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی اہم ذمے داریاں ادا کر چکے تھے۔

خیال رہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ کی عمر لگ بھگ 85 برس ہے اور انہیں کئی برس سے صحت سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔

ایران میں سپریم لیڈر یا ’رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی‘ ایک تاحیات منصب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خامنہ ای کی صحت کو درپیش خدشات کے باعث ایران میں اب ان کی جانشینی کے فوری سوال سے متعلق قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔

ایران میں انقلاب کے بعد صرف ایک مرتبہ اس منصب پر انتقالِ اقتدار ہوا ہے۔ 1989 میں ایران کے انقلاب کی قیادت کرنے والے اور پہلے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال کے بعد سید علی خامنہ ای نے یہ منصب سنبھالا تھا۔

ایران میں اگرچہ صدارتی نظام ہے اور چار سالہ مدت کے لیے عام انتخابات کے ذریعے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن اختیار اور اقتدار کا مرکز اور منبع سپریم لیڈر کا منصب ہے۔

ایران کے آئین کی دفعہ 60 کے تحت صدر اور وزرا انتظامی امور چلاتے ہیں، ماسوائے ان امور کے جو براہِ راست سپریم لیڈر کے دائرہٴ اختیار میں آتے ہیں۔

ایران میں آیت اللہ خمینی کی زیرِ قیادت 1979 میں آنے والے انقلاب کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد ایران کے ریاستی و حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی تھی اور آیت اللہ خمینی نے رہبر معظم یا سپریم لیڈر کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔

ایران میں ریاست کے تین بنیادی ادارے مقننہ یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ سے متعلق فیصلوں میں براہِ راست یا بالواسطہ حتمی اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے۔

سپریم لیڈر کا انتخاب اور ضرورت پڑنے پر انہیں ہٹانے کا اختیار مجلس خبرگان یا ’اسمبلی آف ایکسپرٹس‘ نامی کونسل کرتی ہے جس کے 88 ارکان ہوتے ہیں۔ ہر آٹھ سال بعد اس کونسل کے ارکان براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔

مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں صرف مذہبی علما اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد ہی کو بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔

اس خبر میں وائس آف امریکہ کے نمائندے مائیکل لپین کی رپورٹ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں