|
امریکہ نے حال ہی میں شام کے صحرائی علاقے میں داعش کے لگ بھگ 75 ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں جن کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ داعش اسد حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھانے سے بار رہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے پیر کے روز کہا کہ ہم آئی ایس آئی ایس (داعش) کو اپنی صلاحیتوں کو تقویت دینے اور محفوظ پناہ گاہیں بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس وقت امریکی حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا شام میں امریکی فوجی موجودگی بڑھانے کا ارادہ نہیں ہے اور ان کی توجہ وہاں موجود امریکی فورسز کے تحفظ پر مرکوز ہے۔
شام میں کتنی امریکی فوج موجود ہے؟
شام میں اس وقت تقریباً 900 امریکی فوجی اور نامعلوم تعداد میں کانٹریکٹر موجود ہیں جو زیادہ تر شمالی اور مشرقی علاقوں کے چھوٹے فوجی مراکز اور جنوب میں عراق اور اردن کی سرحدوں کے قریب تعینات ہیں۔
اس کے علاوہ شام میں چھوٹی ٹیموں کی شکل میں امریکی اسپیشل آپریشنز فورسز کی بھی معمول کے مطابق آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ لیکن ان کا شمار تعیناتی میں نہیں ہوتا۔
داعش نے 2014 میں عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کر کے اپنی خلافت قائم کر لی تھی جسے امریکہ نے انہیں اپنے اتحادیوں کی مدد سے 2017 میں شکست دی اور کردوں کی قیادت والی سیرئین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ساتھ مل کر 2019 میں شام میں بھی ان کی خلافت کا خاتمہ کیا۔
تاہم شام میں اب بھی داعش کی باقیات موجود ہیں جن میں ایس ڈی ایف کے حراستی مراکز میں ان کے دس ہزار کے لگ بھگ جنگجو اور پناہ گزین کیمپوں میں ان کے خاندانوں کے ہزاروں افراد شامل ہیں۔
تاہم پچھلے ایک سال سے داعش کے جنگجو زیادہ فعال اور متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور انہوں نے شام میں امریکی اور کرد فورسز کے خلاف حملے کیے ہیں۔
شام کو تشدد کے واقعات اور بیرونی طاقتوں کے مسابقتی مفادات نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ شام میں روس کے پاس ایک فوجی بحری اور ایئر بیس موجود ہیں۔ تاہم ملک میں روسی فورسز کی تعداد بہت کم ہے۔ شام میں فوجی موجودگی کے حوالے سے روس اور امریکہ رابطے میں رہتے ہیں تاکہ کسی غلطی کی بنا پر تصادم کے امکان سے بچا جا سکے۔
شام میں ایران بھی ایک فریق کے طور پر موجود ہے اور وہ شام کو اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کے عسکری گروپ کو لبنان میں ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے ایک گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ملک کے جنوب مشرق میں ایک اہم شاہراہ کے پاس امریکہ کا التنف گیریژن واقع ہے۔ یہ شاہراہ ایرانی حمایت یافتہ فورسز کو تہران سے جنوبی لبنان اور اسرائیل کی سرحد تک پہنچا سکتی ہے۔ امریکی گیریژن اس سپلائی لائنز میں خلل ڈال سکتا ہے۔
امریکہ داعش کے ٹھکانوں کو ہدف کیوں بنا رہا ہے؟
امریکہ گزشتہ ایک عشرے سے شام میں داعش کے لیڈروں، کیمپوں اور ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ اس عسکری گروپ کو اکھٹا ہونے اور قوت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
پچھلے سال اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے اور اس میں لبنان کے شیعہ عسکری گروپ حزب اللہ کے شامل ہونے کے بعد شام میں داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
خطے کی صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے امریکہ داعش سمیت کئی عسکری گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے جن میں صحرا میں قائم داعش کے ٹھکانے اور جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں شامل ہیں۔
اسد کی حکومت گرنے کے بعد اتوار کے روز امریکہ نے شام کے صحرا میں داعش کے کیمپوں اور اس کے عسکریت پسندوں کے خلاف زیادہ بڑے حملے کیے ہیں جن میں بی۔52 بمبار، اے۔10 حملہ آور طیارے اور ایف۔ 15 لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا گیا۔
پنٹاگان کی ترجمان سبرینا سنگھ نے پانچ مقامات پر کیے گئے لگ بھگ 75 حملوں کی تفصیلات تو نہیں بتائیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد ایک واضح پیغام بھیجنا تھا۔
شام میں امریکہ کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے امریکہ شام کی جنگ یا اسد حکومت کا تختہ الٹنے میں ملوث نہیں ہے۔ اس کی توجہ شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر مرکوز ہے، جس میں داعش کو شکست دینا، ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپوں کو روکنا اور القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی باقیات سے نمٹنا شامل ہے۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں انسداد دہشت گردی کے سابق ڈائریکٹر کرس کوسٹا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ میرے خیال میں امکان یہ ہے کہ داعش نہ صرف عراقیوں کے لیے مسائل پیدا کرے گی بلکہ اس سے خطے کے دیگر دہشت گردوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔
سن 2014 اور 2020 کے دوران برطانیہ کی انٹیلیجینس ایجنسی ایم آئی۔16 کے سربراہ الیکس ینگر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ تشویش کی بات یہ ہے کہ داعش کی خلافت ختم ہونے کے بعد اس کے قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد باقی ہے، جو یورپ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
شام پر حکومت کون کرے گا؟
شام میں باغیوں کی قیادت حیات تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) نامی گروپ کے پاس ہے جو ماضی میں القاعدہ کا حصہ تھی۔ لیکن کئی سال پہلے وہ اس سے الگ ہو گئی تھی۔
امریکہ اور اقوام متحدہ ایچ ٹی ایس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔گروپ کے سربراہ احمد الشارع یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا گروپ اعتدال پسند ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے اے پی سے معلومات لی گئیں ہیں)