Tuesday, December 24, 2024
ہومWorldاسرائیلی وزیرِ اعظم کی حماس کے ساتھ جنگ بندی پر دباؤ کو...

اسرائیلی وزیرِ اعظم کی حماس کے ساتھ جنگ بندی پر دباؤ کو کم کرنے کی کوشش


  • مجھ سے زیادہ کوئی بھی شخص یرغمالوں کی بازیابی کے لیے پُر عزم نہیں ہے، اسرائیلی وزیرِ اعظم
  • یرغمالوں کی بازیابی کے معاملے پر کوئی بھی مجھے ہدایات نہیں دے سکتا، بن یامین نیتن یاہو
  • ہلاک یرغمالوں کو زندہ واپس لانے میں ناکامی پر معافی مانگتا ہوں، نیتن یاہو
  • غزہ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین پیر کی شب نیتن یاہو کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کی۔

ویب ڈیسک _ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو غزہ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد جنگ بندی کے لیے بڑھنے والے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دو روز قبل جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک سرنگ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ملی تھیں جس کے خلاف اسرائیل میں زبردست مظاہرے ہوئے جب کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے پیر کو پہلی بار اس معاملے پر گفتگو کی۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا ’’مجھ سے زیادہ کوئی بھی شخص یرغمالوں کی بازیابی کے لیے پُر عزم نہیں ہے۔‘‘ اور ان کے بقول اس معاملے پر کوئی بھی ان کو ہدایات نہیں دے سکتا۔

نیتن یاہو نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی گفتگو میں کہا کہ وہ یرغمالوں کو بچانے میں ناکامی پر معافی مانگتے ہیں۔ ان کے بقول، اسرائیلی فورسز یرغمالوں کے بہت قریب پہنچ گئی تھیں لیکن ہم کامیاب نہ ہو سکے۔

انہوں نے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے والی عسکری تنظیم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “حماس کو اس کی بہت بڑی قیمت چکانا ہوگی۔”

اتوار کو تل ابیب، یروشلم سمیت ملک کے متعدد شہروں میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جب کہ پیر کو بھی یرغمالوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔

مظاہرین کی بڑی تعداد مرکزی یروشلم میں پیر کی شب اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ذاتی گھر کے باہر جمع ہوئی اور انہوںنے غزہ جنگ بندی معاہدہ کرنے کے حق میں نعرے بازی کی۔

دوسری جانب غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے ثالثوں کی معاونت سے جاری مذاکرات میں غزہ اور مصر کی سرحد کے درمیان واقع فلاڈیلفی کوریڈور پر اسرائیل کے کنٹرول کا معاملہ بھی ڈیڈ لاک کی وجہ بنا ہوا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم اس کوریڈور پر اسرائیل کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔

اسرائیل کا الزام ہے کہ اس علاقے میں حماس زیرِ زمین سرنگوں کو غزہ میں اسلحہ اسمگل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ دوسری جانب حماس اور مصر اسرائیل کے اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین کی جانب سے پیر کو ہڑتال کے سبب ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں میں خلل واقع ہوا۔ ٹریڈ یونین کی ہڑتال کی مختلف تنظیموں نے بھی حمایت کی تھی۔

ٹریڈ یونین کی ہڑتال کا مقصد حکومت پر غزہ میں 11 ماہ سے جاری لڑائی ختم کرنے کے لیے جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی کا معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

ہڑتال کے باعث بینکوں، سرکاری ٹرانسپورٹ، اسپتالوں، بڑے اسٹورز، اہم ترین ایئرپورٹس پر سرگرمیاں متاثر ہوئیں یا وہاں کسی قسم کے کوئی امور انجام نہیں دیے گئے۔ بعض سیکٹرز پر ہڑتال کے اثرات کم نظر آئے۔

ٹریڈ یونین کی ہڑتال کی وجہ سے ہفتے کے آغاز پر پیر کو لگ بھگ آٹھ گھنٹوں تک امور متاثر رہے۔ بعد ازاں ایک مقامی عدالت نے اس ہڑتال کے حوالے سے سماعت میں ہدایات جاری کیں کہ احتجاج کے لیے ٹریڈ یونین کا جاری کردہ نوٹس کافی نہیں تھا۔

یرغمالوں کی رہائی کی کوشش کرنے والے اور بین یامین نیتن یاہو کے ناقد مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی اور اس سے وہاں موجود یرغمالوں کی جان بچائی جا سکے گی۔ لیکن اسرائیلی وزیرِ اعظم کی حکومت میں شامل ان کے زیادہ تر اتحادی اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے حماس سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی مخالفت کرتے ہیں۔

بن یامین نیتن یاہو اس جنگ بندی معاہدے کی تجویز کو مسترد کر چکے ہیں جس کے تحت غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا کے بعد لڑائی مستقل ختم ہو جائے۔ انہیں خدشہ ہے اگر اسرائیلی فوج غزہ سے نکل گئی تو حماس ایک بار پھر خود کو مسلح کر کے اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔

حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل مذاکرات میں نئے مطالبات شامل کر کے مذاکراتی عمل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس کے مطالبات میں فلاڈیلفی کوریڈور کا انتظام سنبھالنا اور غزہ کے بالکل وسط میں ایک کوریڈور کا قیام شامل ہے۔

حماس نے جنگ بندی کے اس وسیع معاہدے کو تسلیم کرنے کی حامی بھری تھی جو امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے جولائی میں پیش کیا تھا۔

اس معاہدے پر تین مراحل میں عمل درآمد ہونا تھا جس میں پہلے مرحلے میں حماس نے تمام یرغمال افراد کو رہا کرنا تھا جس کے جواب میں غزہ میں مکمل جنگ بندی ہونی تھی جب کہ اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج کا مکمل انخلا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو بھی رہائی دی جانی تھی۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جنگ بندی معاہدے اور یرغمالوں کی رہائی کے معاملے میں پیش رفت نہ ہونے پر تنقید کی ہے۔

صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز کہا کہ نیتن یاہو غزہ میں حماس کی تحویل میں موجود یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے کافی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

صدر بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ رواں ہفتے فریقین کو یرغمالوں سے متعلق حتمی معاہدہ پیش کریں گے؟ تو صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم اس کے بہت قریب ہیں۔

ان کے سامنے سوال رکھا گیا کہ کیا پیش کی جانے والی حتمی تجویز قبول کر لی جائے گی؟ تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ امید پر دنیا قائم ہے۔

گزشتہ برس سات اکتوبر پر اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے بعد غزہ جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یر غمال بنا لیا گیا تھا۔

حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق 11 ماہ سے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں میں لگ بھگ 41 ہزار فلسطینی ہلاک جب کہ 94 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں نشانہ بننے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔

دوسری جانب اسرائیل مسلسل دعویٰ کر رہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کئی ہزار حماس کے جنگجو بھی ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں