|
اسرائیل پر ایران کے ڈرونز اور میزائل حملوں سے غزہ میں جاری لڑائی کے خطے میں پھیلاؤ کے خدشات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر کئی عالمی رہنماؤں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال نے مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ہونے والے ایک حملے کے لیے ایران نے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیا تھا۔ اس حملے میں ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے دو جنرلز کے علاوہ دیگر سات اہل کار بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو اس حملے کا جواب دینے کا اعلان کیا تھا اور اسرائیل کی جانب سے خبر دار کیا گیا تھا کہ ایران کی کارروائی کی صورت میں اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ماضی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان در پردہ لڑائی یا ‘شیڈو وار‘ چلتی رہی ہے لیکن ہفتے کو میزائل اور سینکڑوں ڈرونز کے ذریعے ایران نے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا ہے۔
ایران کے اس براہ راست حملے کے بعد اسرائیل کا ممکنہ ردِعمل کیا ہو سکتا ہے اور یہ حالیہ کشیدگی خطے کو کسی بڑی جنگ میں دھکیل سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مبصرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
اسرائیل کیا سوچ رہا ہے؟
ایران کے حملے کے بعد اتوار کو اسرائیل کی پانچ رکنی جنگی کابینہ کا اجلاس ہوا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ میں اس بات پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا کہ ایران کے حملے جواب کس طرح دیا جائے؟ تاہم امریکی نیوز نیٹ ورک ‘این بی سی’ نے ایک اسرائیل کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹ کی ہے کہ اس کارروائی کا جواب ضرور دیا جائے تاہم اس کا طریقہ کار کیا ہو گا اس بارے میں وزیرِ اعظم نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
این بی سی کے مطابق اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) جوابی کارروائی کے بارے میں ممکنہ آپشنز پیش کریں گی تاہم یہ واضح کہ ایران کے حملے کا جواب دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے اسرائیلی عہدے داروں کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اتوار کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسرائیل کو ایران کے براہِ راست حملے کا جواب دینا چاہیے تاہم ایسے کسی اقدام کے وقت اور اس کی شدت کے بارے میں اختلافِ رائے پایا گیا۔
اجلاس کے بعد جنگی کابینہ میں شامل وزیر بینی گانتس کا کہنا تھا کہ ہم ایک علاقائی اتحاد بنائیں گے اور ایران سے اس وقت اور ایسے طریقے سے اس کی قیمت وصول کریں گے جو ہمارے لیے موزوں ہو گا۔
اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے بھی ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کی تشکیل کا عندیہ دیا ہے لیکن کسی فوری کارروائی کا اعلان نہیں کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف کسی بھی جوابی کارروائی کی شدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے حملے سے کتنا نقصان ہوا ہے۔ چوں کہ ایران کے ڈرونز اور میزائل حملوں سے تاحال اسرائیل معمولی نقصان ہوا ہے اور کسی سویلین یا فوجی اہل کار کو بھی نقصان نہیں پہنچا ہے اس لیے اس کے اتحادی بھی اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ہونے والے ٹیلی فون پر گفتگو میں بھی واضح کیا ہے کہ “ہمیں کشیدگی بڑھنے کے امکانات کا احتیاط اور حکمتِ عملی سے جائزہ لینا ہو گا۔”
خاص طور پر اس تناظر میں کہ ایرانی حملے کی وجہ سے اسرائیل میں معمولی نقصان ہوا ہے اور کسی کی جان بھی نہیں گئی۔
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں مشرقِ وسطیٰ کے سیکیورٹی امور کے ماہر جوناتھن پینی کوف کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے لیے بہترین آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایران کی سرزمین پر کسی ہدف پر محدود نوعیت کا حملہ کریں جس میں ہونے والا نقصان بھی محدود ہو۔ ایسے کسی کارروائی کی صورت میں ایران کوئی ردِعمل نہیں کر سکے گا۔
پینی کوف کا کہنا ہے کہ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیل اہم ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنانے سمیت کوئی انتہائی شدید اقدام کرے۔
اسرائیل کے پاس آپشنز کیا ہیں؟
معروف امریکی جریدے ’فارن پالیسی‘ میں سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو ڈینیئل بیمین اور امریکن انٹر پرائز کے سینئر فیلو کینیتھ ایم پولاک نے اپنے مشترکہ مضمون میں تفصیل اسرائیل کو دست یاب آپشنز کا جائزہ لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر ایران کا حملہ ناکام ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسرائیل کوئی جوابی کارروائی کرے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج پہلے ہی غزہ میں جاری حماس کی جنگ میں پوری طرح مصروف ہے اور اسرائیل واضح اشارے دے چکا ہے کہ وہ امریکہ سمیت بین الاقوامی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر رفح میں اپنی کارروائی مکمل کرے گا۔
وہ لکھتے ہیں کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی حمایت میں کمی آئی ہے اور یہی رجحان امریکہ کے اندر بھی دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
ساتھ ہی جنگ اور اس کے لیے ریزرو فوج کو میدان میں اتارنے کی وجہ سے دفاعی اخراجات اس قدر بڑے ہیں کہ اسرائیل کی معیشت کو ابھی اس سے دھچکا لگا ہے۔
دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل اپنے دفاع کو درپیش مسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے انہیں کم کرنا چاہے گا جب کہ عام اسرائیلی شہری بھی معمول کی زندگی کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی میں بھی اسرائیل کو تکنیکی سطح پر بھی بہت سے اہم باتوں کو مدِنظر رکھنا ہو گا۔ اگر اسرائیل جوابی کارروائی میں ایران پر میزائل حملہ کرتا ہے تو اس کے لیے اسے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود کا استعمال کرنا ہو گا۔
اردن نے اپنی حدود سے اسرائیل کی جانب لانچ کیے گئے ایران ڈرونز اور میزائل کو مار گرایا تھا۔ لیکن کسی بڑے حملے کے لیے اردن کی فضائی حدود پار کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس سے اسرائیل خود بھی گریز کرنا چاہے گا۔
ان کے بقول، سعودی عرب کے بارے میں بھی اس کی حکمتِ عملی یہی ہونی چاہیے کیوں کہ ایسے کسی اقدام کی صورت میں ریاض کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کے فضائی یا میزائل حملوں کے لیے دوسرا راستہ عراق اور ترکیہ کی فضائی حدود سے گزرتا ہے جو بہت طویل ہے۔ ترکیہ مضبوط دفاعی قوت ہے اور اپنی فضائی حدود کو استعمال کرنے سے روک سکتا ہے۔ ادھر شام میں بھی روس کا ایئر ڈیفینس سسٹم موجود ہے۔
ڈینیئل بیمین امریکن اور کینیتھ ایم پولاک کے مطابق یہ رکاوٹیں اسرائیل کو ایران کے خلاف کارروائی سے روک نہیں سکتیں لیکن ایسے کسی اقدام کو اس کے لیے انتہائی پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
اس لیے امکان یہی ہے کہ اسرائیل جوابی کارروائی کے طور پر شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایرانی اہلکاروں اور عسکری تنصیبات کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ مزید بڑھا دے۔
بعض مبصرین کے مطابق اسرائیل کو اپنی فوج کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی کارورائی کرنا پڑے گی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگرچہ اسرائیل نے اتوار کو ایران کی جانب سے لانچ کیے گئے 300 سے زائد ڈرونز اور میزائل میں سے بیشتر کو کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی تباہ کردیا جس میں اسے اپنے اتحادیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔
اس سے ایران کا فضائی دفاعی نظام ایک بڑی آزمائش میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ لیکن ایران اور اس سے پہلے گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے تباہ کن حملے سے خطے میں اسرائیل کے ایک مضبوط دفاعی قوت ہونے کا امیج متاثر ہوا ہے جسے بحال کرنے کے لیے ایران کو جواب دینا ضروری ہو گا۔
تاہم ایسے حالات میں اسرائیل ایران کے خلاف جس علاقائی اتحاد بنانے کی بات کررہا ہے اس میں غزہ میں سنگین ہوتے بحران کی وجہ سے اس کی بڑھتی تنہائی بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔
ایران کے لیے حملے کی قیمت؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران نے ڈرونز اور میزائل بھیج کر اپنی قوت کا مظاہرہ ضرور کیا ہے۔ لیکن یہ بہت محتاط اقدام تھا اور اس کے لیے ہتھیاروں کے انتخاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران نے تنازع کی شدت سے متعلق امکانات کو پیش نظر رکھا ہے۔
بین الاقوامی جریدے ’فارن پالیسی‘ کے مطابق اس کارروائی میں ایران کی اتحادی لبنانی ملیشیا حزب اللہ نے بھی حصہ نہیں لیا کیوں کہ اس کی جانب سے ہونا والا کوئی حملہ کسی بڑے تصادم کی بنیاد بن سکتا تھا۔ ایران انتہائی اہم اہداف کے لیے ہی حزب اللہ کا کارڈ استعمال کرتا ہے۔
میگزین کے مطابق غزہ کی صورتِ حال کی وجہ سے اسرائیل کو پہلے ہی عالمی سطح تنقید کا سامنا ہے۔ اس لیے بھی ایران نے کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جس میں اس کا بھاری جانی و مالی نقصان ہو۔ کیوں کہ ایسی صورت میں اسرائیل پر غزہ میں مفاہمت کے لیے بڑھنے والا دباؤ ہمدردی میں تبدیل ہو جاتا۔
ان کا مزید کا کہنا ہے کہ ایران کی حکومت کو معاشی چیلنجز کے ساتھ بڑھتے ہوئے احتجاج اور بلوچ قوم پرستوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان حالات میں کوئی بڑی کارروائی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی اور اسرائیل کے ساتھ کسی بڑے تصادم کی صورت میں لامحالہ امریکہ کو بھی اس کی حمایت کے لیے آگے آنا پڑتا۔ اس لیے ایران نے صرف خطے میں اپنی پراکسیز کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ نپا تلا حملہ کیا ہے۔
تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے تعلق رکھنے والے ایران کے امور کے ماہر ولیئم ایف ویشلر کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ کئی برسوں سے خطے میں ایران کے اتحادیوں اور پراکسیز کو نشانہ بنانے کے سلسلہ شروع کیا تھا جسے ’جنگوں کے درمیان جنگ‘ کی حکمتِ عملی کا نام دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ عراق میں اسرائیل نے ایک سفارتی عمارت کو نشانہ بنایا جسے بہ آسانی عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ جس سے یہ پیغام ملا کے پاسدارانِ انقلاب کو اسرائیل کی حدود کے قریب آپریشنز کی صورت میں براہِ راست نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ تہران کے لیے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں تھا کیوں کہ وہ خطے میں اپنی دیگر ایسی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانا چاہتا تھا۔
اٹلانٹک کونسل ہی سے تعلق رکھنے والے ایران سے متعلق امور کے ماہر ڈینی سٹرینووچ کا کہنا ہے کہ ہے اسرائیل اور امریکہ کے خبردار کرنے کے باجود ایران نے یہ حملہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خطے میں اپنی ڈیٹرنس قائم کرنا چاہتا تھا۔
ساتھ ہی خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے ایران کا اندازہ تھا کہ حملہ کرنے کی قیمت، حملہ نہ کرنے سے زیادہ ہوگی۔
ایران نے کیا حاصل کیا؟
ولیئم ایف ویشلر کا کہنا ہے کہ ایران نے کارروائی کے بعد پیغام میں کشیدگی میں اضافہ نہ کرنے کا واضح عندیہ دیا ہے اور امریکہ کو اس سے دور رہنے کی تنبیہ کی ہے۔
ویشلر کے مطابق ایران نے اس کارروائی سے سب سے پہلے تو یہ نظیر قائم کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے اسرائیل پر براہ راست حملہ اور وہاں شہریوں کو عدم تحفظ کا شکار کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اس حکمتِ عملی کے تحت کی گئی ہے کہ پہلے ایسا کوئی اقدام کیا جائے جو پہلے نہیں ہوا تھا پھر اس پر آنے والے ردِعمل کا جائزہ لیا جائے۔ اگر ردِعمل شدید نہ ہو تو رفتہ رفتہ ایسے اقدامات کی شدت بڑھا دی جائے اور اس طرح ایسی کارروائیاں سرے سے غیر معمولی ہی نہ رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران اسی حکمتِ عملی کے تحت دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جو اپنی پراکسیز کو تواتر سے ہتھیار فراہم کرتا ہے اور اسے ایک معمول کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔
ویشلر کا کہنا ہے کہ غزہ میں شروع ہونے والی جنگ سے ایران کا جوہری پروگرام ’فرنٹ پیج‘ سے ہٹ گیا ہے اور اس پر ہونے والی پیش رفت ان مراحل سے آگے بڑھ چکی ہیں جنھیں پہلے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ایران نے حزب اللہ کو کسی بڑے خطرے میں ڈالنے سے گریز کیا ہے اور اسے اپنے جوہری پروگرام کے لیے ڈیٹرنس کے طور پر استعمال کرتا رہے گا۔
امریکہ کہاں کھڑا ہے؟
اسرائیل پر ایران کے حملے کو ناکام بنانے میں امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے کسی جوابی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں امریکہ کا مؤقف بہت سادہ ہے۔ وہ خطے میں کوئی بھی ایسی جنگ نہیں چاہتا جس میں اسے بالآخر فریق بننا پڑے۔ لیکن وہ ساتھ ہی اسرائیل سے چاہتا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائی کو مکمل کر لے۔
فارن پالیسی کے مطابق خطے میں ہونے والی کسی بھی جنگ سے عالمی معیشت متاثر ہو گی جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے لیے موجودہ تنازع میں امریکہ کو اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں مزید چلیجنز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لیے بھی امریکہ خطے میں کشیدگی کو روکنے کی پالیسی اختیار کرے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے ایران اور اسرائیل دونوں کے پاس ٹھوس وجوہ ہیں کیوں کہ دونوں ہی ملکوں کو بیرونی کے ساتھ ساتھ داخلی سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
اے پی کے مطابق اگر اسرائیل کوئی پیش قدمی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے اتحادیوں کو بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا اور امریکہ کسی بھی ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے اپنی پوری کوشش کررہا ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔