|
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے پیر کو جنگی کابینہ تحلیل کردی ہے جس کے غزہ جنگ اور فائر بندی کے لیے ہونے والی کوششوں پر ممکنہ اثرات ہوں گے۔
نیتن یاہو نے جنگی کابینہ کی تحلیل کا اعلان اپنے سیاسی حریف بینی گینز کی جنگی کابینہ سے علیحدگی کے تین روز بعد کیا تھا۔
بینی گینز ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ انہیں اسرائیل میں ایک معتدل رہنما کے طور دیکھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد نیتن یاہو نے ایک جنگی کابینہ تشکیل دی تھی جس میں ان کے حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی شامل تھے۔ یہ کابینہ غزہ جنگ سے متعلق فیصلہ سازی کے لیے بنائی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق گانٹز کی کابینہ سے علیحدگی کے بعد اب نیتن یاہو کی زیرِ قیادت قومی سلامتی کابینہ تمام فیصلے کرے گی جس میں سخت گیر دائیں بازو کا پلڑا بھاری ہے جو امریکہ کے پیش کردہ فائر بندی کی تجاویز کے مخالف ہیں اور جنگ میں مزید شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدے دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے پی‘ کو بتایا ہے کہ نیتن یاہو بعض فیصلوں کے لیے اپنے قریبی اتحادیوں سے ایڈ ہاک بنیادوں پر مشاورت کریں گے۔
بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ان اجلاسوں میں بعض سخت گیر رہنما کا اپنے موقف پر اصرار مزید بڑھ سکتا ہے۔ تاہم نیتن یاہو نے خود بھی فائر بندی کے منصوبے سے متعلق زیادہ آمادگی ظاہر نہیں کی ہے اور کابینہ پر ان کا مکمل انحصار انہیں اپنے فیصلوں کے لیے کور فراہم کرے گا۔
جنگی کابینہ کی تحلیل کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کیا ہوں گے؟ یہاں انہی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
بینی گینز جنگی کابینہ سے کیوں الگ ہوئے؟
بینی گینز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوا گیلانت سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ان کی جنگی کابینہ میں شامل ہوئے تھے۔
اس وقت بینی گینز نے نیتن یاہو حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے ارکان کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے جنگ سے متعلق فیصلوں کے لیے ایک محدود نوعیت کی فیصلہ ساز باڈی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم غزہ میں اسرائیل کی حکمتِ عملی پر اختلافات کی وجہ سے رواں ماہ کے آغاز میں گینز نے جنگی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ درجنوں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے درجنوں اسرائیلیوں کی بازیابی میں پیش رفت نہ ہونے سے اکتا چکے ہیں۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نئے انتخابات اور اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات کی کارروائی کو مؤخر کرنے کے لیے جنگ کی آڑ لے رہے ہیں۔
بینی گینز نے نیتن یاہو سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کی منظوری دیں جس میں دیگر نکات کے ساتھ ساتھ یرغمالوں کی بازیابی اور غزہ سے حماس کی حکومت کے خاتمے کی واضح حکمتِ عملی فراہم کی گئی ہو۔
وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اس منصوبے کی حمایت سے گریز کیا تو بینی گینز نے جنگی کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں ’انتہائی اہم اسٹریٹجک نوعیت کی فیصلہ سازی پر سیاسی مقاصد کے تحت تاخیر اور ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔‘‘
جنگی کابینہ کی تحلیل سے کیا بدلے گا؟
جنگی کابینہ کی تحلیل سے وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے ان معتدل رہنماؤں میں فاصلے مزید بڑھ جائیں گے جو حماس کے ساتھ کسی جنگ بندی معاہدے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں۔
حماس اور اسرائیلی قیادت کے درمیان جنگ بندی کے لیے مہینوں سے جاری مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس دونوں ہی امریکہ کے پیش کردہ جنگ بندی پلان کی مکمل حمایت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
امریکہ کے مجوزہ منصوبے میں یرغمالوں کی واپسی، جنگ کے خاتمے کی جانب بڑھنے کا واضح طریقہ کار اور غزہ میں تعمیر نو جیسے نکات شامل ہیں۔
جنگی کابینہ کی تحلیل کے بعد نیتن یاہو کی فیصلہ سازی کا مکمل انحصار اپنی سیکیورٹی کابینہ پر ہوگا جس کے بعض ارکان جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہیں اور ایک بار پھر غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے حامی ہیں۔
بینی گینز کی علیحدگی کے بعد اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی قوم پرست رہنما اتمار بین گویر نے مطالبہ کیا تھا کہ جنگی کابینہ میں انہیں بھی شامل کیا جائے۔
تاہم پیر کو اس کابینہ کی تحلیل سے بن گویر کو جنگ سے متعلق فیصلہ سازی سے دور رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن انہیں مکمل طور پر سائیڈ لائن نہیں کیا جاسکے گا۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق جنگی کابینہ کی تحلیل کے بعد نیتن یاہو جنگ کو مزید طول دینے کے لیے آزاد ہوں گے۔
ان کے ناقدین پہلے ہی ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ جنگ ختم کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں کیوں کہ اس کے بعد ان کی حکومت کے خلاف سات اکتوبر کے حملے روکنے میں ناکامی کی تحقیقات کا آغاز ہوسکتا ہے
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگ ختم ہوئی تو ایسے حالات میں نئے انتخابات کے امکانات بڑھ جائیں گے جب کہ وزیرِ اعظم کی مقبولیت بہت کم ہوچکی ہے۔
یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں شعبۂ سیاسیات کے چیئرمین گیدیون راہت جنگی کابینہ تحلیل کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’اس کا مطلب ہے کہ وہ (نیتن یاہو) سارے فیصلے خود کریں گے یا ان لوگوں کے ساتھ فیصلہ سازی کریں گے جن پر انہیں پورا اعتماد ہے اور وہ انہیں چینلج نہیں کرتے۔‘‘
ان کے بقول سست روی کے ساتھ ختم ہونے والی جنگ ہی میں ان کا مفاد ہے۔
اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔