|
اسرائیل کی فوج شام کی حدود کے اندر بفرزون میں داخل ہو چکی ہے اور وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ یہ غیر معینہ مدت تک اس علاقے میں قیام کریں گی۔ اس پیش رفت کے ساتھ اسرائیل کے شمال میں شام کے ساتھ ملحق اس کی سرحد کی لکیر دھندلا گئی ہے۔
سن 1948 میں اپنے قیام کے بعد اسرائیل کی سرحدوں پر کوئی نہ کوئی تنازع ہوتا رہا ہے اور کوئی نہ کوئی سرحدی علاقہ ایسا رہا ہے جس پر اسرائیل کے دعوے پر تنازعات رہے ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگوں، قبضے، جنگ بندی یا امن معاہدوں کی صورت میں اس کی سرحدیں بدلتی رہی ہیں۔
رواں ماہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے تیزی سے شام میں پیش قدمی کی اور 50 سال سے غیر فوجی علاقہ قرار پانے والے بفرزون میں داخل ہو گیا جو بعض مبصرین کے نزدیک اسرائیل کے لیے سرحدوں میں تبدیلی کا ایک اور موقع ہو سکتا ہے۔
رواں ہفتے منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو شامی حدود میں 10 کلو میٹر اندر واقع ماؤنٹ ہرمن کے دورے کے لیے پہنچے۔ اس طرح وہ حالیہ تاریخ میں اسرائیل کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم بن گئے جنھوں نے شام کی سرزمین پر قدم رکھا۔
اس موقعے پر نیتن یاہو نے کہا کہ بفرزون میں فوج داخل کرنے کا مقصد شام میں آنے والی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو روکنا ہے۔
نیتن یاہو نے منگل کو ماؤنٹ ہرمن کے دورے کے موقعے پر کہا کہ فورسز اس وقت تک یہاں موجود رہیں گی جب تک اسرائیل کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا کوئی اور انتظام نہیں ہو جاتا۔
یہ ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں کس طرح اسرائیل کی حدود تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
اسرائیل کا قیام
اقوامِ متحدہ نے 1947 میں برطانوی فلسطین مینڈیٹ کے اندر آنے والے علاقے کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کی انتظامات اقوامِ متحدہ کے ماتحت آنا تھے۔
تاہم اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا۔ اسرائیل نے 1948 میں آزادی کا اعلان کردیا اور پڑوسی عرب ممالک نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔
اس جنگ کے خاتمے پر برطانوی مینڈیٹ میں آنے والے 77 فی صد علاقوں پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگیا۔ اس میں سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اردن کا کنٹرول تھا جب کہ غزہ کی پٹی مصر کے زیرِ انتظام تھی۔
چھ روزہ جنگ
مشرقِ وسطیٰ میں 1967 میں شروع ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے اردن سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ ادھر غزہ اور جزیرہ نما سینائی کا علاقہ مصر اور گولان پہاڑیوں کے علاقے شام سے اسرائیل کے پاس چلے گئے۔
یہ ابتدائی طور پر اسرائیل کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی لیکن بعد میں آنے والی دہائیوں میں انہی علاقوں سے کئی ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو آج تک برقرار ہیں۔
اسرائیل نے تیزی سے مشرقی یروشلم کا الحاق کر لیا جہاں یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں تینوں کے اہم مقدس مقامات واقع ہیں۔
اگرچہ اسرائیل نے کبھی مغربی کنارے کا باقاعدہ الحاق نہیں کیا تاہم اس کے علاقوں میں بستیاں بنا کر اس کے اکثر علاقے پر اپنا انتظام قائم کر دیا ہے۔ مغربی کنارے میں بنائی گئی اسرائیل کی بستیوں میں پانچ لاکھ اسرائیلی یہودی رہتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کی اکثریت مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کو مقبوضہ علاقے قرار دیتی ہے۔
اسرائیل نے سینائی، گولان اور غزہ کی پٹی میں بھی تعمیرات کی ہیں۔
مصر کے ساتھ 1979 میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد اسرائیل نے سینائی کا علاقہ مصر کو واپس کردیا اور وہاں اپنی تعمیرات اور آباد کاری ختم کردی۔
گولان کی پہاڑیاں
اسرائیل نے 1981 میں شام سے ملحق اپنی شمالی سرحد پر گولان پہاڑیوں کا الحاق کیا۔ 2019 میں اس وقت کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنھوں نے گولان پر اسرائیل کے کںٹرول کو تسلیم کیا۔ باقی دنیا آج بھی گولان کی پہاڑیوں کو شام کا علاقہ تسلیم کرتی ہے۔
نیتن یاہو نے رواں ہفتے اعلان کیا ہے کہ اسد کی حکومت گرنے کے بعد وہ گولان کے علاقے میں آبادیاں بڑھائیں گے۔
لبنان پر 1982 کا حملہ
اسرائیل نے لبنان میں موجود فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف 1978 میں ایک مختصر مدت کی کارروائی کی تھی۔
تاہم 1982 میں اسرائیل ایک بار پھر آپریشن کے لیے لبنان میں داخل رہا اور بعد میں 18 سال تک جنوبی لبنان پر قابض رہا۔ حزب اللہ ملیشیا سے شدید لڑائی کے بعد 2000 میں اسرائیل نے جنوبی لبنان کا علاقہ خالی کر دیا۔
معاہدۂ اوسلو 1993
یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک عبوری امن معاہدہ تھا جس میں فلسیطنیوں کو غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں میں انتظامی اختیارات دیے گئے تھے تاہم اسرائیلی بستیاں ختم نہیں کی گئی تھیں۔
اس معاہدے کا مقصد دو ریاستی حل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا تاہم متعدد ادوار کے باوجود امن کے لیے ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔
فلسطینی پورے مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے کو اپنی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہونا چاہیے۔
اسرائیل، غزہ اور لبنان
سن 2005 میں اس وقت کے وزیر اعظم ایریئل شیرون نے غزہ سے فوج کے انخلا اور بستیوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ دو سال بعد حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور فلسطینی اتھارٹی کو حکومت سے نکال دیا تھا۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد ایک بار پھر اسرائیل نے غزہ پر جوابی حملہ کیا اور اس کے آپریشنز ابھی بھی جاری ہیں۔
اسرائیلی قیادت نے غزہ میں کسی ممکنہ جنگ بندی کے بعد کے اقدامات سے متعلق کوئی مںصوبہ نہیں دیا ہے تاہم اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی سرحد کے ساتھ ایک بفرزون بنائیں گے جہاں طویل المدت بنیادیوں پر اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔
نتین یاہو کی اتحادی حکومت میں شامل بعض سخت گیر عناصر غزہ میں ایک بار پھر یہودی بستیاں بسانے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔
رواں برس اکتوبر میں اسرائیل کی فوج حزب اللہ کے ساتھ ایک برس تک جھڑپوں کے بعد لبنان میں داخل ہو گئی۔ جنگ بندی کے بعد، اسرائیل نے اگلے برس جنوری کے اختتام تک لبنان کے نزدیک سرحدی پٹی سے فوج نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔
اسد حکومت کے بعد
آٹھ دسمبر کو اسد حکومت کے ختم ہونے کے بعد اسرائیلی فورسز شام میں غیر فوجی بفرزون کے علاقے میں کئی کلو میٹر اندر تک آ چکی ہیں۔
اگرچہ اسرائیل اسے ایک وقتی اقدام قرار دے رہا ہے تاہم اس علاقے میں اپنے قیام کے بارے میں کوئی دو ٹوک مؤقف بھی اختیار نہیں کر رہا تاہم مصر، ترکیہ، سعودی عرب اور اقوامِ متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر اسے شام کی حدود میں داخلے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک بیان میں شام میں مفاد رکھنے والے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں کوئی نیا تنازع پیدا کرنے سے گریز کریں۔
اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فور نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے منسلک شام پر گہری نظر رکھنے والی تجزیہ کار کرمیت ولینسی کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اسرائیل شام کے اندر بہت زیادہ دیر نہیں رہے گا۔
ان کے بقول ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو مشتعل کرنے کا اسرائیل کو بہت کم ہی فائدہ ہو گا اور طویل عرصے تک اس علاقے میں کنٹرول رکھنے پر بہت زیادہ خرچ آئے گا جب کہ اسرائیل کی فوج مسلسل جنگ میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے شام سے انخلا میں وقت لگے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ شام میں صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔
کرمیت ولینسی کے مطابق اگر جولانی ایک ایسی معتدل حکومت بناتے ہیں جس کے لیے وہ بظاہر اقدامات کر رہے ہیں تو ان کے نزدیک اسرائیلی فوج کے طویل عرصے تک شامی علاقوں میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہو گی۔
اس تحریر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔