برلن (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایک کار کے ایک ہجوم والے کرسمس بازار میں گھسنے کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ جرمن ریاست سیکسنی انہالٹ کے دارالحکومت میگڈبرگ میں پیش آیا۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ حملہ آور سعودی عرب کا شہری ہے اور اس کے حوالے سے سعودی حکومت پہلے ہی جرمنی کو خبردار کر چکی تھی۔ گورنر رینر ہیزلف نے کہا کہ ابتدائی اموات کی تعداد دو سے بڑھ کر پانچ ہو گئی ہے، کیونکہ مزید کئی افراد شدید زخمی ہیں۔ حکام نے اس واقعے کو ایک سوچا سمجھا حملہ قرار دیا اور بتایا کہ ڈرائیور کو موقع پر ہی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا۔ جرمن چانسلر اولاف شلز نے ہفتہ کے روز جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی۔انہوں نے کہا کہ تقریباً 40 افراد اتنے شدید زخمی ہیں کہ ان کے بارے میں ہمیں بہت فکر مند ہونا پڑے گا۔ سیکسنی انہالٹ کی وزیر داخلہ تمارا زائیسچانگ نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت ایک 50 سالہ سعودی ڈاکٹر کے طور پر کی، جو 2006 میں جرمنی آیا تھا۔
العربیہ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا “مملکت تشدد کو مسترد کرنے کے اپنے موقف کی تصدیق کرتی ہے اور جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ اور وفاقی جمہوریہ جرمنی سے ہمدردی اور مخلص تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔”
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق سعودی حکام نے اس حملے سے پہلے جرمن حکام کو مشتبہ شخص کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ پولیس نے واقعے کے بعد مشتبہ شخص کے گھر پر چھاپہ مارا تاکہ دھماکہ خیز مواد یا دیگر شواہد تلاش کیے جا سکیں، لیکن مزید شواہد نہیں ملے۔ مشتبہ شخص کے کرائے کی کار استعمال کرنے کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
سعودی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ سعودی عرب نے مشتبہ شخص کے انتہا پسند خیالات کے بارے میں جرمن حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، کیونکہ اس نے اپنے ذاتی X اکاؤنٹ پر امن و امان کو خطرہ لاحق کرنے والی پوسٹس کی تھیں۔ ڈیر شپیگل میگزین نے رپورٹ کیا کہ مشتبہ شخص جرمنی کی دائیں بازو کی پارٹی “آلٹرنیٹو فار جرمنی” (AfD) کے خیالات سے ہمدردی رکھتا تھا۔ اس کے حملے کے محرکات تاحال غیر واضح ہیں، اور پولیس نے مشتبہ شخص کا نام ظاہر نہیں کیا۔ جرمن میڈیا میں اسے طالب اے کے نام سے شناخت کیا جا رہا ہے۔
جرمنی کے FAZ اخبار نے مشتبہ شخص کا انٹرویو 2019 میں شائع کیا تھا، جس میں اسے اسلام مخالف کارکن کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس نے کہا “میرے جیسے لوگ، جن کا اسلامی پس منظر ہے لیکن وہ اب عقیدت مند نہیں رہے، یہاں کے مسلمانوں کی طرف سے نہ تو سمجھ بوجھ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی برداشت۔میں تاریخ کا سب سے جارحانہ ناقد اسلام کا ہوں۔ اگر آپ مجھ پر یقین نہیں کرتے تو عربوں سے پوچھ لیں۔”
ٹوئٹر پر ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ یہ شخص سعودی حکام کو مطلوب تھا لیکن یہ بھاگ کر جرمنی پہنچ گیا۔ مبینہ طور پر اس کی حوالگی کیلئے سعودی عرب نے کوششیں بھی کیں لیکن جرمن حکومت کی جانب سے اسے سیاسی پناہ دے دی گئی۔ جرمنی میں اس شخص نے خود کو ایک دہریے کے طور پر متعارف کروایا اور اسلام کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا۔ اس کے حوالے سے ان معلومات کی کسی مصدقہ میڈیا ادارے یا حکام کی جانب سے تصدیق نہیں ہوسکی۔