|
ویب ڈیسک _ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ہلاکت کا الزام اسرائیل پر عائد کیے جانے کے باوجود اب بھی کئی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں جب کہ ایرانی تحقیقاتی ادارے دارالحکومت میں ایک مہمان کی ہلاکت کی تفتیش کر رہے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر ایران میں تین روزہ سوگ منایا جا رہا ہے جب کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعرات کو حماس کے مقتول رہنما کی نماز جنازہ پڑھائی۔
ہنیہ کی میت تہران سے قطر منتقل کی جائے گی جہاں جمعے کو ان کی تدفین ہونا ہے۔
اسماعیل ہنیہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں بدھ کی علی الصباح انہیں سرکاری مہمان خانے میں نشانہ بنایا گیا۔
حماس کے سینئر رہنما اور اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھی خلیل الحیہ کے مطابق اسماعیل ہنیہ جس عمارت میں موجود تھے وہاں کمرے میں انہیں براہِ راست راکٹ سے نشانہ بنایا گیا اور وہ راکٹ سیدھا ہنیہ کو لگا۔
خلیل الحیہ بھی تہران میں ہی موجود ہیں جہاں بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ یہ واضح ہے کہ وہ راکٹ ہی تھا جس سے عمارت کے شیشے، دروازے، کھڑکیاں اور چند ایک دیواروں کو بھی نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ اس وقت جو عمارت میں موجود تھے انہوں نے اس راکٹ کو دیکھا ہے جب کہ دیگر معلومات ہم ایران پر چھوڑتے ہیں۔
خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ ایران کے پبلک پراسیکیوٹر نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جب کہ ایک تیکنیکی ٹیم جائے وقوعہ پر موجود ہے جو صورتِ حال کو دیکھ رہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔
ایران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے اور اسرائیل سے انتقام لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ تاہم اسرائیل نے حماس رہنما کے قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
البتہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسماعیل ہنیہ کا نام لیے بغیر اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ چند روز کے دوران حماس اور حزب اللہ سمیت ایران کی پراکسیز کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں کے لیے آئندہ دن مشکل ہوں گے کیوں کہ بیروت حملے کے بعد سے مختلف سمتوں سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن ہم کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم متحد ہو کر ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی بھی طرف سے اور جارحیت کی کسی بھی صورت کا سخت جواب دیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اگرچہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن یہ قتل ایسی جگہ اور ایسے موقع پر ہوا ہے جس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔
واشنگٹن کے نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار نکولس ہیرس کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ایک اعلیٰ سطح کے دورے کے دوران ‘تہران کے دل’ میں ہوئی ہے جو اسرائیل کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائے۔
وائس آف امریکہ کے ڈیل گالک سے بات کرتے ہوئے ہیرس نے کہا کہ اسرائیل ایران اور اس کے اتحادیوں کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ اور منگل کو بیروت میں حزب اللہ کے سینئر رہنما فواد شکر کی ہلاکت اشارہ ہیں کہ اسرائیلی پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی انٹیلی جینس، نگرانی، جاسوسی اور آپریشنل صلاحیتیں سب سے بہترین ہیں اور وہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
ایران کا ردِ عمل کیا ہوگا؟
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے جواب میں اسرائیل کو سخت سزا دینے کا اعلان کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا ہے۔
کنگز کالج لندن سے وابستہ مشرقِ وسطیٰ کی سیکیورٹی امور کے پروفیسر اہرون بریگمن کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ کہنا کہ ایران جوابی اقدام کے طور پر کیا کر سکتا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایران کی کوشش ہو گی کہ وہ اسرائیل پر براہِ راست حملہ نہ کرے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بریگمن نے کہا کہ ایران کی پہلی ترجیح ہو گی کہ جوہری بم کا استعمال نہ کیا جائے کیوں کہ یہ وقت بم استعمال کرنے کا نہیں ہے۔ اس لیے تہران اپنی پراکسیز کے ذریعے جوابی اقدامات کو ترجیح دے گا۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔)