|
اقوام متحدہ نے منگل کے روز اسرائیلی محاصرے میں تباہ ہونے والے غزہ کے دو اسپتالوں میں اجتماعی قبروں کی رپورٹوں کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ شہر کے سب سے بڑے اسپتال الشفا اور خان یونس میں واقع دوسرے بڑے اسپتال النصر میڈیکل کمپلیکس کی تباہی کی صورت حال سے ’دہشت زدہ‘ ہیں۔
پیر کے روز، فلسطینی علاقے کے شہری دفاع کے ادارے نے بتایا تھا کہ صحت کے کارکنوں نے النصیر اسپتال میں ہلاک اور دفن کیے گئے 250 سے زائد افراد کی لاشیں نکالی ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے گزشتہ ماہ اس اسپتال کا محاصرہ کیا تھا۔
اپریل کے شروع میں صحت کے عالمی ادارے نے کہا تھا کہ الشفا اسپتال کو اسرائیلی محاصرے کے دوران تباہ کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد وہ محض ایسا خول بن گیا تھا جس کے اندر بہت سی لاشیں تھیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے منگل کو غزہ کی پٹی کے دو اسپتالوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی غیر جانبدارانہ، مؤثر اور شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بین الاقوامی تفتیش کاروں کو تحقیقات میں شامل ہونا چاہیے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت اسپتالوں کو جنگ میں تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن غزہ میں چھ ماہ سے زیادہ عرصے کی جنگ کے دوران اسپتال بار بار اسرائیلی بمباری کا ہدف بن چکے ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے غزہ کے طبی مراکز کو اپنے کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال کیا اور 7 اکتوبر کو اسرائیل کے اندر حملے کے دوران اغوا کیے گئے یرغمالوں کو وہاں رکھا گیا۔
حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ ترک کہتے ہیں کہ اسپتال، بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت انتہائی خصوصی تحفظ کے حق دار ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ عام شہریوں، قیدیوں اور دیگر افراد کو جان بوجھ کر قتل کرنا جنگی جرم ہے۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ اسے اس بارے میں آزاد معلومات تک رسائی نہیں ہے کہ ان دونوں اسپتالوں میں کیا ہوا تھا۔
تاہم عالمی ادارے کی ترجمان راوینہ شمداسانی کا کہنا ہے کہ غزہ حکام کی طرف سے فراہم کی گئی رپورٹس اور تفصیلات کی تصدیق کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ النصر اسپتال سے 283 لاشیں ملی ہیں، جن میں سے 42 کی شناخت ہو چکی ہے۔
انہوں نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان لاشوں کو مبینہ طور پر زمین کی گہرائی میں دفن کیا گیا تھا اور انہیں کچرے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
ترجمان شمداسانی نے بتایا کہ مرنے والوں میں مبینہ طور پر بوڑھے افراد، خواتین اور زخمی بھی شامل ہیں۔
کئی افراد مبینہ طور پر اس حالت میں ملے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ان کے کپڑے اتار دیے گئے تھے۔
جہاں تک الشفاءاسپتال کا تعلق ہےتو اسرائیلی فوج کہہ چکی ہے کہ اسپتال میں اس کی فوجی کارروائی کے دوران تقریباً 200 فلسطینی مارے گئے تھے۔
شمداسانی نے ان رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتوں سے متعلق یہ اندازہ کم ہو سکتا ہے۔
الشفا اسپتال کے صحن میں دو قبروں میں 30 کے قریب افراد کو دفن کرنے کی اطلاع ہے۔
شمداسانی کا مزید کہناتھا کہ یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ان لاشوں میں سے کچھ کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے۔
ترجمان شمداسانی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ غزہ کی پٹی کے دو اسپتالوں میں ہلاک کیے گئے افراد کے درست اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی تحقیقات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لاشوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کی اطلاعات بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)