|
غزہ میں امدادی قافلے کے گرد ہلاکتوں کے واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے کچھ کا علاج کرنے والے ایک اسپتال کے سربراہ نے جمعے کو بتایا کہ 80 فیصد زخمی گولیوں کا نشانہ بنے تھے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے شدید فائرنگ کی تھی۔
العودہ اسپتال کے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد صالح نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے اسپتال میں 176 زخمیوں کو لایا گیا تھا، جن میں سے 142 کو گولیاں لگی تھیں اور 34 افراد بھگدڑ میں زخمی ہوئے تھے۔
صحت کے حکام کے مطابق جمعرات کو اس وقت کم از کم 115 فلسطینی ہلاک اور 750 سے زیادہ زخمی ہو گئے، جب عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے اس بڑے ہجوم پر فائر کھول دیا جو خوراک حاصل کرنے کے لیے امداد لانے والے ٹرکوں کی طرف دوڑ رہے تھے۔
اسرائیل نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر اس موقع پر بھگدڑ مچنے سے کچلے گئے تھے اور اس کے فوجیوں نے ہجوم میں سے کچھ پر اس وقت گولیاں چلائیں تھیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ خطرناک انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
دوسرے اسپتالوں کے اہل کاروں تک فوری طور پر ہلاک اور زخمیوں کے بارے میں معلومات کے لیے رسائی نہیں ہو سکی۔
اس خونریزی نے یہ نشاندہی کی کہ اسرائیل حماس کی تقریباً 5 ماہ پرانی جنگ کے دوران کس طرح افراتفری نے غزہ کے 23 لاکھ فلسطینیوں کے لیے امداد پہنچانے کی کوششوں کو مفلوج کر دیا ہے، جن میں سے ایک چوتھائی کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انہیں بھوک کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ اور دوسرے امدادی گروپ امدادی قافلوں کے لیے محفوظ راہداریوں کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزہ کے بیشتر علاقوں میں اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطوں میں دشواری، جاری لڑائیوں اور امن عامہ کی خرابی کی وجہ سے، جس میں مایوس اور پریشان حال لوگوں کی امدادی قافلوں پر یلغار بھی شامل ہے، امداد کی ترسیل تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ شمالی حصے میں بھوک اور بھی بدتر ہے، جہاں اکتوبر کے آخر میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے زمینی کارروائی شروع کرنے کے بعد سے یہ علاقہ الگ تھلگ اور زیادہ تر تباہ ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود کئی لاکھ فلسطینی وہاں ابھی بھی رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے فوجی پابندیوں اور سیکورٹی کے فقدان کے باعث ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں شمالی غزہ میں امداد نہیں پہنچائی، لیکن اس ہفتے کے شروع میں دوسرے گروپوں کی طرف سے کئی امدادی قافلے وہاں پہنچے۔
امداد حاصل کرنے میں دشواری کی ایک علامت کے طور پر، اردن کے ایک طیارے نے جمعے کو شمالی غزہ میں چاول، آٹا اور بچوں کے دودھ سمیت امدادی سامان کے پیکٹ فضا سے گرائے۔ امدادی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ فضائی ذریعے سے امداد کی تقسیم کوئی موثر ذریعہ نہیں ہے اور یہ آخری چارہ کار ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔