اسمتھ کو سن 1988 میں ایک پادری کی بیوی الزبتھ سینیٹ کو قتل کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔ اس کے ایک ساتھی کو بھی سزا سنائی گئی اور اسے سن 2010 میں موت کی سزا دے دی گئی تھی۔
امریکی ریاست الاباما میں سزائے موت کے ایک قیدی کی نائٹروجن گیس کے ذریعہ دم گھونٹ کر موت کی سزا پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ امریکی سپریم کورٹ نے اس متنازع اور غیر تجربہ شدہ طریقہ کار پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔امریکہ کی جنوبی ریاست الابامہ میں نائٹروجن گیس کا استعمال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ایک قیدی کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے اس طریقہ کار کے استعمال کو “اذیت” سے تعبیر کیا ہے۔
اٹھاون سالہ کینتھ یوجین اسمتھ کو قتل کے ایک کیس میں قصور وار قرار دیے جانے کے بعد سن 1989 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ سن 2022 میں اسے مہلک انجکشن دے کر موت کی سزا پر عمل درآمد کی کوشش کی گئی لیکن یہ ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف موت کی سزا دیتے وقت بلکہ بعد میں بھی اسے شدید جسمانی اور نفسیاتی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔
امریکی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اسمتھ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کو روکنے سے انکار کردیا۔ ججوں نے عدالت کے فیصلے کواسمتھ کی جانب سے قانونی چیلنج کی اپیل پر سماعت کرنے سے انکار کردیا۔ اسمتھ کے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ الاباما کی طرف سے موت کی سزا دینے کی پہلی ناکام کوشش کی وجہ سے اسے شدید صدمے کا سامنا کرنا پڑا اور اب دوسری مرتبہ موت کی سزا پر عمل درآمد کرنا امریکی آئین کی آٹھویں ترمیم میں “ظالمانہ اور غیر معمولی سزا” کے خلاف حاصل تحفظ کی خلاف ورزی ہو گی۔ اگر اسمتھ کو موت کی سزا دی جاتی ہے تو یہ سن 1999 کے بعد گیس کا استعمال کرکے موت کی سزا پر عمل درآمد کا پہلا واقعہ ہو گا، جب ایک مجرم کو ہائیڈروجن سائنائیڈ گیس کے ذریعہ موت کی سزا دی گئی تھی۔
اسمتھ کو موت کی سزا کو روکنے کے لیے اگر آخری لمحے تک کی جانے والی کوششیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں تو اسے جمعرات کو بین الاقوامی معیاری وقت کے مطابق چھ بجے کے بعد سے 30 گھنٹے کے اندر کسی وقت نائٹروجن گیس سے دم گھونٹ کر موت کی نیند سلایا جاسکتا ہے۔ نائٹروجن گیس دینے کے لیے اس کے چہرے پر ایک فیس ماسک لگایا جائے گا، جس سے جسم میں آکسیجن پہنچنا بند ہوجائے گا۔ الاباما ان تین ریاستوں میں سے ایک ہے جس نے سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے نائٹروجن گیس کے استعمال کی منظوری دی ہے۔
امریکہ میں ایسی ریاستیں جہاں اب بھی موت کی سزا کی اجازت ہے وہ اس کے لیے بالعموم مہلک انجکشن استعمال کرتی ہیں۔ لیکن یہ ریاستیں اس مہلک دوا کے حصول کی جدوجہد کررہی ہیں۔ الاباما کے اٹارنی جنرل اسٹیو مارشل نے سزائے موت کے اس متنازع طریقہ کو “سزائے موت کا شاید سب سے زیادہ انسانی طریقہ” قرار دیا۔ تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینہ شامدسانی نے خبر دار کیا کہ یہ طریقہ”بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے لحاظ سے تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کے زمرے میں آتا ہے۔”
اسمتھ کو سن 1988 میں ایک پادری کی بیوی الزبتھ سینیٹ کو قتل کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔ اس کے ایک ساتھی کو بھی سزا سنائی گئی اور اسے سن 2010 میں موت کی سزا دے دی گئی تھی۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ دونوں مجرموں کو مقتولہ خاتون کے شوہر چارلس سینیٹ نے انہیں قتل کرنے کے لیے فی کس ایک ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ چارلس سینیٹ نے اپنی بیوی کے قتل کے ایک ہفتے بعد خودکشی کرلی تھی۔
خیال رہے کہ امریکہ میں سن 2023 میں 24 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ ان تمام کو مہلک انجکشن دیا گیا۔ امریکی ریاستیں جو اب بھی سزائے موت کی اجازت دیتی ہیں انہیں مہلک انجکشن میں استعمال ہونے والے باربیٹوریٹس کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی50 میں سے 23 ریاستوں نے سزائے موت کو ختم کردیا ہے جب کہ چھ ریاستوں، ایریزونا، کیلفورنیا، اوہائیو، اوریگون، پنسلوانیا اور ٹینیسی کے گورنروں نے اس کے استعمال پر روک لگا دی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;