|
ویب ڈیسک۔۔امریکہ نے پیر کو کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت دوبارہ شروع کر رہا ہے، جس سے برسوں سے جاری حملہ آور ہتھیاروں کی فروخت کی معطلی ختم ہو جائے گی، جس کا سبب سعودی بادشاہت کی جانب سے یمن پر خون ریز حملے تھے۔
ایک ایسے موقع پر جب غزہ کی جنگ اپنے 10 مہینے میں داخل ہو چکی ہے، امریکہ سعودی عرب کو خطے میں اپنے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھ رہا ہے اور امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کانگریس سے مشاورت اور مناسب اطلاع کے ساتھ ہتھیاروں کی باقاعدہ فروخت کا عمل بحال ہو جائے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں سے کہا کہ سعودی عرب بدستور امریکہ کا قریبی اسٹریٹجک ساتھی ہے اور ہم اس کے ساتھ اپنی شراکت داری بڑھانا چاہتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے 2021 میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی سعودی عرب کے حوالے سے انسانی حقوق پر زور دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ اپنے اس دیرینہ ساتھی کو صرف دفاعی نوعیت کے ہتھیار ہی فروخت کرے گی۔
امریکہ نے یہ کارروائی سعودی قیادت کی فورسز کے ان فضائی حملوں کے بعد کی تھی جن میں یمن میں ہزاروں شہریوں کے مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں تھیں۔
سعودی عرب کی زیر قیادت فورسز نے یہ حملے ان حوثی باغیوں کے خلاف کیے تھے جو ملک کے زیادہ تر حصے پر قابض ہو چکے تھے اور جنہیں ایران کی سرپرستی حاصل تھی۔
حوثی باغیوں نے دارلحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو وہاں سے فرار ہونا پڑا تھا۔
لیکن اس کے بعد سے خطے کے لیے جغرافیائی نقطہ نظر سے سوچ نمایاں طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ نے امریکہ کے تعاون سے 2022 میں ایک جنگ بندی میں ثالثی کی تھی جو بڑی حد تک نافذ ہے۔
ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد سے یمن پر ایک بھی سعودی فضائی حملہ نہیں ہوا اور یمن کی جانب سے بھی سعودی عرب میں سرحد پار سے گولہ باری بڑی حد تک بند ہے۔
پٹیل کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اس وقت سے معاہدے میں طے کیے گئے اپنے وعدے پورے کر رہا ہے اور ہم بھی اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)