دنیا کی تیسری سب سے بڑی جمہوریت اور مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی معیشت رکھنے والے ملک انڈونیشیا میں ہونے والے عام انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق سابق جنرل پرابوو سوبیانتو صدارتی دوڑ میں برتری حاصل کررہے ہیں۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں گزشتہ روز صدارتی، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے شروع ہوا جو 6 گھنٹے جاری رہنے کے بعد مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے ختم ہو گیا تھا۔
جس کے بعد ووٹوں کی گتنی شروع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
صدارتی انتخابات میں وزیر دفاع پرابوو سوبیانتو کو مضبوط برتری حاصل ہے، غیر سرکاری نتائج کے مطابق وہ مخالفین انیس باسویدان اور گنجر پرانوو سے بہت آگے ہیں۔
72 سالہ سابق جنرل پرابوو سوبیانتو کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری ابتدائی نتائج کے بعد وہ 55 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہوئے واضح طور پر جیت کے لیے پراعتماد ہے۔
ان کے حریفوں انیس باسویدان اور گنجر پرانوو نے کہا ہے کہ وہ ملک کے الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نتائج کا انتظار کریں گے۔
غیر سرکاری نتائج کی بنیاد پر جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے سابق جنرل پرابو سوبیانتو کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو الیکشن کمیشن کے سرکاری نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
جکارتا میں اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا کی جمہوریت اچھی طرح کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ’سب کے لیے‘ ہوگی اور وعدہ کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی انڈونیشیا کے شہریوں کی ’حفاظت‘ کریں گے۔
انڈونیشا کے عام انتخابات میں تقریباً 2 لاکھ 59 ہزار امیدواروں نے حصہ لیا جو 17 ہزار سے زائد جزیروں پر مشتمل انڈونیشیا کے 20 ہزار 600 عہدوں کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں، لیکن پوری توجہ صدر جوکو ویدوڈو کو تبدیل کرنے کی دوڑ پر مرکوز ہے، جن کے اثر و رسوخ سے یہ طے ہو سکتا ہے کہ کون ملک کی قیادت سنبھالے گا۔
انڈونیشیا میں صدر اور اس کے نائب پر مشتمل امیدوار کے پیئر کو ووٹ دیا جاتا ہے، صدارتی امیدواروں اور ان کے 3 نائب صدارتی امیدواروں پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔
انتخابات میں انیس راشد بسویدان، پروبووہ سوبی آنتو اور گنجر پرانووہ صدارتی امیدوار ہیں جبکہ میوہیمین اسکندر،جبران راکابُومنگ اور محفوظ ایم ڈی نائب صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔
توقع ہے کہ الیکشن کمیشن 20 مارچ تک سرکاری نتائج کا اعلان کر دے گا۔
پچھلے ہفتے ہونے والے 2 سروے میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ صدر جوکووی کے پروگراموں کو جاری رکھنے کا وعدہ کرنے والے پرابوو سوبیانتو کو ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔
ان سرویز میں پرابوو سوبیانتو کو 51.8 فیصد اور 51.9 فیصد سپورٹ دکھائی گئی جبکہ انیس باسویدان اور گنجر پرانوو بالترتیب 27 اور 31 پوائنٹس پر ہیں، مکمل طور پر جیتنے کے لیے ایک امیدوار کو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ اور ملک کے نصف صوبوں میں 20 فیصد ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دارالحکومت جکارتا میں گرج چمک کے ساتھ کچھ حصوں میں سیلاب کے باعث ووٹنگ کا عمل سست رفتاری سے شروع ہوا، اس سیلاب سے تقریباً 70 پولنگ اسٹیشنز متاثر ہوئے لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا کسی تاخیر سے ٹرن آؤٹ پر اثر پڑا یا نہیں، گزشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ تقریباً 75 فیصد رہا تھا۔
یاد رہے کہ 2019 میں انتخابات کے بعد مہلک فسادات پھوٹ پڑے تھے جبکہ اس بار تقریباً 2 لاکھ سیکیورٹی اہلکار حفاظت پر مامور ہیں۔
صاف انتخابات کا مطالبہ
امیدوار انیس باسویدان نے ایک پولنگ اسٹیشن پر کھڑے ہوکر مطالبہ کیا کہ میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ ہم منصفانہ انتخابات چاہتے ہیں تاکہ یہ پر امن ہو
اس انتخاب میں امیدوار انیس باسویدان نے تبدیلی لانے اور سہارتو کی آمرانہ، کلیپٹوکریٹک حکمرانی کے خاتمے کے بعد 25 سالوں میں حاصل کی گئی جمہوری اصلاحات میں ہونے والی پسپائی کو روکنے کے لیے مہم چلائی ہے۔
دوسری جانب گنجر پرانوو کا تعلق انڈونیشیا کی ڈیموکریٹک پارٹی آف اسٹرگل سے ہے، جس پارٹی کے جوکووی بظاہر ایک رکن ہیں، اور انہوں نے صدر کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی تھی۔
ووٹ ڈالنے سے پہلے گنجر پرانوو نے بھی صاف الیکشن کا مطالبہ کیا تھا تاکہ امیدوار نتائج کو قبول کر سکیں۔