|
ویب ڈیسک۔۔۔جس وقت ایرانی صدر ابراہیم ریئسی، وزیرخارجہ اور دیگر چھ افراد کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے جہاں ان کی نششت کھڑکی کے ساتھ تھی، آذربائیجان ایران سرحد کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہلے ہی گھنے بادل بننا شروع ہو گئے تھے۔
خراب ہوتے ہوئے موسم کے باوجود ہیلی کاپٹر 145 کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب سفر پر روانہ ہوا جہاں تبریز کے قریب تیل کی ایک نئی پائپ لائن کی تقریب تھی۔
اور پھر ایک گھنٹے کے اندر ہیلی کاپٹر بیل۔212 بادلوں سے ڈھکے پہاڑ سے ٹکرا گیا۔
اگرچہ 19 مئی کو ہونے والے ہیلی کاپٹر حادثے کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی، لیکن سخت گیر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حامی صدر کی اچانک ہلاکت نے ملک کو درپیش تضادات اور چیلنجز کو بے نقاب کر دیا ہے۔
حادثے کے بعد گھنٹوں تک جاری رہنے والی امدادی کوششوں کے بعد ایران کو ایسے میں امریکہ سے مدد کی درخواست کرنی پڑی، جب کہ اس سے چند ہفتے قبل اس نے اسرائیل پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا تھا اور وہ اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی بڑھا کر اس سطح کے قریب لے آیا جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
دوسری جانب حادثے کے شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر اس قسم کا ہے جس کا تعلق 1979 کے اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد کی تاریخ سے جڑا ہے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایک سینئر فیلو فرزین ندیمی، جو ایران کی فوج کا مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایران دہری ثقافت کا ملک ہے۔ وہاں کچھ پہلو بہت اچھے اور اچھی طرح سے منظم ہیں، ان کے پاس تیل ہے اور وہ باصلاحیت ہیں۔ لیکن دوسری جانب کئی معاملوں میں وہ بہت پیچھے ہیں۔
ایرانی فوج کے تفتیش کاروں نے حادثے کے بارے میں دو بیانات جاری کیے ہیں جن میں کسی تخریب کار حملے یا ہیلی کاپٹر کے اندر سازش یا سائبر حملے کے امکانات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق حادثے کے وقت ہیلی کاپٹر کا عملہ آخری رابطہ ٹوٹنے سے قبل 69 سیکنڈ تک رابطے میں تھا اور انہوں نے کسی ہنگامی صورت حال کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
تاہم بعض حکام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب موسم خراب ہونا شروع ہو گیا تھا تو پھر ہیلی کاپٹر نے پرواز کیوں کی۔
ایران کی ایکسیڈینسی کونسل کے رکن مصطفیٰ میر سلیم نے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر پراسیکیوٹرز سے کہا ہے کہ وہ اس غلطی کا کھوج لگائیں جو صدر کی ہلاکت کا سبب بنی۔
ایک معروف صحافی عباس عابدی نے ایکس پر یہ سوال اٹھایا کہ ریئسی کا ہیلی کاپٹر اڑانے والے پائلٹ نے پرواز سے متعلق ان قواعد کو نظر انداز کیا کہ دیہی علاقے میں پرواز مرکزی سڑکوں کے قریب رکھی جائے، جس سے نیوگیشن اور ہنگامی صورت حال میں بحفاظت اترنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماضی میں ایران کے سابق صدور محمود احمدی نژاد اور ابوالحسن بنی صدر دونوں اپنے اقتدار کے دور میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں بال بال بچ گئے تھے۔
سیریم نامی ایک کمپنی کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر تقریباً 30 سال پرانا تھا اور اسے کینیڈا کی ایک کمپنی سے ایرانی ایئرفورس کے لیے خریدا گیا تھا۔ ایسے 12 ہیلی کاپٹر اب بھی ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہیں۔
واشنگٹن میں قائم نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کے ایروناٹکس کیوریٹر راجر ڈی کونر کے مطابق امریکہ میں یہ ہیلی کاپٹر اب بھی زیر استعمال ہیں اور انہیں وی آئی پی مشنز کے لیے بھی بھیجا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک درمیانے درجے کا سادہ ہیلی کاپٹر ہےجو عمومی طور پر آٹومیٹک نہیں ہے اور اس کی پرواز کو کلی طور پر پائلٹ کنٹرول کرتا ہے۔یہ اس کی خوبی بھی ہے اور خرابی بھی ہے۔
عباس عابدی کہتے ہیں کہ ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی نے سینکڑوں ہیلی کاپٹروں کا معاہدہ کیا تھا اور وہ اسے ایران میں بنانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں اسلامی انقلاب کی وجہ سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ اس قسم کے بہت سے ہیلی کاپٹر 1980 کے عشرے میں ایران عراق جنگ میں تباہ ہو گئے تھے۔
ایران میں بیل۔212 ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کو سب سے زیادہ نقصان ایران پر عائد معاشی پابندیوں سے پہنچا جس سے ان کے فاضل پرزوں کی فراہمی بند ہو گئی۔مقامی طور پر پرزے تیار کرنے اور چوری چھپے منگوانے کی کوششوں کے باوجود زیادہ تر ہیلی کاپٹر پرواز کے قابل نہیں رہے۔
ایران کے ایک سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ہیلی کاپٹر حادثے کی ذمہ داری امریکی پابندیوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ امریکہ پابندیاں لگانے پر معذرت نہیں کرے گا کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر دہشت گردی کی مدد کے لیے سامان پہنچانے میں استعمال ہوئے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہناتھا کہ اس حادثے کی ذمہ دار خود ایرانی حکومت ہے جس نے خراب موسمی حالات میں اسے اڑانے کا فیصلہ کیا۔
ابھی یہ سوال تشنہ ہیں کہ ایران حادثے کے بعد کئی گھنٹوں تک ہیلی کاپٹر کا کھوج کیوں نہیں لگا سکا تھا جب کہ ہیلی کاپٹر میں سوار ایک شخص نے حکام سے موبائل فون پر بات بھی کی تھی۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ہیلی کاپٹر میں ہنگامی ٹریکر بھی نصب تھا یا نہیں جو عام طور پر ان میں لگایا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ خراب موسم کے باوجود پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اڑانے کی اجازت کس نے دی؟ یا اسے ہیلی کاپٹر میں سوار وی آئی پی شخصیات کے دباؤ پر اڑانے کا خطرہ مول لیا گیا۔
عباس ندیمی کہتے ہیں کہ پائلٹ کی غلطی ایک انسانی غلطی ہو سکتی ہے۔لیکن یہاں واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو حادثے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہیلی کاپٹرکو راستہ صاف اور محفوظ ہونے پر ہی اپنی منزل کی جانب بحفاظت پرواز کرنی چاہیے تھی۔ اسے خراب موسم میں اڑان نہیں بھرنی چاہیے تھی۔
(اس رپورٹ کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)