مقتول امام صباحی نے نومبر 2019 سے ’کازرون‘ میں نمازِ جمعہ کے لئے امامت کی ذمہ داری نبھانی شروع کی تھی۔ ایک دہائی قبل تک صوبہ فارس کے کھرامیہ میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ایران کے شہر ’کازرون‘ میں 25 اکتوبر کو نمازِ جمعہ کے بعد امام محمد صباحی کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد کشیدگی والے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ سال 1979 میں اسلامی انقلاب کے قیام کے بعد یہ تیسرا واقعہ ہے جب امام کا قتل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ جنوبی ایران کے ’کازرون میں پیش آیا۔
واضح رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی سربراہی میں سرکاری مذہبی حکام کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ منتخب حکام ہی امام کی تقرری کرتے ہیں۔ ایرانی میڈیا کے ذریعے دی گئی اطلاع کے مطابق امام جمعہ پر حملہ کرنے والے حملہ آور نے خود کشی کر لی ہے۔ ایران کی تحقیقاتی ایجنسی ’بیخرد‘ نے ابتدائی تفتیش کی بنیاد پر امام کے حملے کو دہشت گردانہ حملہ کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایجنسی کے مطابق امام پر ہوئے حملے کے پیچھے قاتل کی ذاتی وجوہات بھی کارفرما ہو سکتی ہیں۔
ایران کی عدلیہ سے وابستہ ’میزان نیوز‘ نے حملہ آور کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ اس شخص کا ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے۔ حملہ آور نے 20 سال قبل بھی دھماکہ خیز مواد کا استعمال کر کے ایک جج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ جج پر حملہ کے بعد جنوب۔مغربی ایران کے گچسرن میں بمباری کے ساتھ ساتھ چوری اور رشوت خوری کے الزام میں وہ چھ سال جیل میں بھی قید تھا۔
قابل ذکر ہے کہ مقتول امام صباحی نے نومبر 2019 سے ’کازرون‘ میں نمازِ جمعہ کے لئے امامت کی ذمہ داری نبھانی شروع کی تھی۔ ایک دہائی قبل تک صوبہ فارس کے کھرامیہ میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ امام صباحی کے قتل سے پہلے سال 2019 میں بھی 29 مئی کو ایک امام پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس سے قبل سال 1981 میں 31 جولائی کو کازرون میں ہی ایک امام کو بعد نماز مغرب گھر کے قریب ہی گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔