|
ایران یورپی طاقتوں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ 13 جنوری کو سوئٹزرلینڈ میں جوہری مسئلے پر مذاکرات کرے گا۔
مقامی میڈیا کے مطابق یہ بات ایران کے قانونی اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بتائی۔
خبررساں ادارے “اے ایف پی” نے ایرانی نیوز ایجنسی ایسنا کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ ایرانی وزیر کے مطابق تہران اور یورپی طاقتوں کے درمیان یہ بات چیت “مشاورتی ہو گی نہ کہ مذاکراتی۔”
فرانس، برطانیہ اورجرمنی نے 17 دسمبر 2024 کو ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے اعلیٰ افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے کو “غیر معمولی سطح” تک بڑھایا دیا ہے۔
اس سلسلے میں یورپی طاقتوں نے کہا تھا کہ اس غیر معمولی اضافے کا ایران کے پاس کوئی ” قابل اعتبار سویلین جواز” نہیں ہے۔
مغربی ممالک نے تہران کو اپنے جوہری پروگرام کو ترقی دینے سے روکنے کے لیے ایران کے خلاف پابندیاں بحال کرنے کا امکان بھی اٹھایا تھا۔
ایران کے اعلیٰ ترین سفارت کار عباس عراقچی کہتے ہیں کہ ان کا ملک مغرب کے ساتھ “منصفانہ اور باعزت مذاکرات کے لیے تیار ہے”۔
تسنیم نام کی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر مزید اعتماد پیدا کریں گے۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ نے مزید کہا، “اگر دوسرا فریق یہ راستہ پسند نہیں کرتا ہے تو یہ فطری ہے کہ ہم اپنے راستے پر چلیں جیسا کہ ہم نے حالیہ برسوں میں کیا ہے۔”
جوہری توانائی کے عالمی ادارے “انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی” کی نگران تنظیم “نیوکلیئر واچ ڈاگ” نے کہا ہے کہ ایران نے حالیہ برسوں میں افزودہ یورینیم کی تیاری میں اتنا اضافہ کر لیا ہے کہ اب وہ ایک ا یسی واحد غیر جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاست بن گئی ہے جس کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم موجود ہے۔
جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فی صد افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے اور 60 فی صد افزودہ یورینیم کو جلد ہی 90 فی کی سطح تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ سال 29 نومبر کو ایران نے جنیوا میں تین یورپی طاقتوں کے ساتھ ایک محتاط ملاقات کی تھی۔
نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے اس وقت اس ملاقات کو شفاف قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ تہران کا اصرار ہے کہ اسے پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا حق حاصل ہے۔
ساتھ ہی ایران اس سے بھی مسلسل انکار کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے، جو تمام ریاستی معاملات میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، طویل عرصے سے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کا مذہبی فرمان یا فتویٰ جاری کر رکھا ہے۔
ایران کے سیکیورٹی چیف علی اکبر احمدیان نے پیر کو دیر گئے اپنا یہ بیان دہرایا کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے خلاف اپنا نظریہ “تبدیل نہیں” کیا ہے۔
اے ایف یی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 13 جنوری کو ہونے والی بات چیت ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے ایک ہفتہ قبل ہو گی۔
یاد رہے کہ سال 2015 میں ایران اور امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت عالمی طاقتوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کی گئی۔
تاہم، ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں امریکہ یکطرفہ طور پر 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا جس کے بعد واشنگٹن نے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔
معاہدے کے طے پانے اور امریکہ کے اس سے الگ ہونے کے دوران تہران نے اس پر پابندی سے عمل کیا لیکن امریکی فیصلے کے بعد ایران نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)