ایران کے خبر رساں ادارے (ارنا) نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے عیدالفطر پر دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ارنا کے مطابق پولیس نے یہ کارروائی ایران کے شہر کرج میں کی ہے جب کہ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے پریس ٹی وی نے بھی اس پیش رفت کو رپورٹ کیا ہے۔
پریس ٹی وی نے پولیس ترجمان جنرل سعید المنتظر مہدی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ البروز میں پولیس نے داعش کے تین ارکان کو گرفتار کیا ہے جو عید کے موقع پر خودکش حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
داعش کے مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری کا دعویٰ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب رواں ماہ کے اوائل میں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے ساحلی شہر چاہ بہار، راسک اور سرباز میں سیکیورٹی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے۔
ایران میں میڈیا پر پابندیوں کے باعث اب تک ان حملوں سے متعلق آزادانہ خبر دنیا تک نہیں پہنچی۔ البتہ سرکاری بیان میں نقصانات کے حوالے سے جاری کردہ ایک محدود بیان بتایا گیا تھا کہ ان حملوں کی ذمہ داری ایران میں موجود سنی عسکریت پسند تنظیم ‘جیش العدل’ نے قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس کے اوائل میں ایران کے شہر کرمان میں پاسدارانِ انقلاب کے رہنما قاسم سلیمانی کی یاد میں منعقدہ ایک سرکاری اجتماع کے دوران خودکش حملوں میں 90 سے زائد افراد ہلاک 250 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
ایران کی حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
ایران میں دہشت گردی کے واقعات کیوں؟
نیولائنز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر ڈائریکٹر، محقق اور مصنف کامران بخاری مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں بدلتی صورتِ حال کو انتہائی قریب سے دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شام میں داعش کی شکست کے بعد داعش کے جنگجو افغانستان اور پاکستان پر مشتمل اس خطے میں منتقل ہو چکے ہیں۔
کامران بخاری عالمی سطح پر ایران کے کردار کے تناظر میں ایران میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اس حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔
جیوپولیٹیکل فیوچر کے لیے اپنی حالیہ تحریر “جہادی عناصرامریکہ، روس اور ایران کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے” میں لکھتے ہیں۔
“یہ مان لینا چاہیے کہ داعش خراسان نا صرف ایران اور روس کی جغرافیائی سیاست بلکہ ان کے اندرونی سیاسی حالات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔”
ان کے بقول یوکرین میں جنگ اور اس کے نتیجے میں پابندیاں روسی ریاست کو کمزور کر رہی ہیں۔ دوسری جانب ایران میں نئے اقتدار کی منتقلی کے دوران سیاسی اور پہلے سے موجود اقتصادی ہلچل کے باعث صورتِ حال انتہائی سنگین ہے۔ داعش خراسان اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ یوریشیا میں ایک بڑے کردار کے طور پر ابھر سکے۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران کو صرف داعش خراسان سے خطرہ نہیں ہے بلکہ دیگر عسکریت پسند تنظیمیں بھی اس خطے میں سرگرم ہیں جو مسلسل ایران کے لیے دردسر بن چکی ہیں۔
عالمی سطح پر عسکریت پسندی، جیواسٹرٹیجک معاملات کے حوالے سے معروف محقق، تجزیہ کار اور میلیٹنٹ وائر کے شریک بانی لوکاس ویبر کا ماننا ہے ایران کو متعدد عسکریت پسندوں کی جانب سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔
ان کے بقول، “داعش خراسان کے علاوہ جیش العدل تہران کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ گروپ بظاہر ایران کی سیکیورٹی اور انٹیلی جینس وسائل پر اضافی دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی کارروائیوں میں تیزی لارہی ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب تہران اسرائیلی کارروائیوں سے نمٹ رہا ہے۔”
دی جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن سے وابستہ لوکاس ویبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کی فرقہ پرست ہالیسیوں کی توسیع بھی داعش اور جیش العدل جیسے خطروں کو بڑھا رہی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ایران کے سنی اکثریتی صوبے سیستان بلوچستان میں جیش العدل نے ہی ساحلی شہر چاہ بہار سمیت تین مختلف مقامات پر سیکیورٹی تنصیبات پر کامیاب حملے اور ایران کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔
دوسری جانب ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق اس حملے میں گیارہ ایرانی محافظ مارے گئے تھے۔
دسمبر 2023ء میں بھی جیش العدل نے راسک شہر کو نشانہ بنایا تھا۔ چاہ بہار کو البتہ اپنی بندرگاہ کے باعث خاص اہمیت حاصل ہے جس پر اس وقت عالمی قوتوں کی خاص نظر ہے۔ خصوصاً چین اور ہندوستان نے چاہ بہار میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس حوالے سے ان ممالک کے مابین کئی اعلیٰ سطح کے اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔
تاہم کچھ بین الاقومی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں پراکسیز کے کردار نے ان کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔
کیا پراکسیز ایران کے لیے مشکلات کا باعث ہیں؟
پاکستان اور افغانستان سے جنگجووں کی ایک اچھی خاصی تعداد زینبیون اور فاطمیون بریگیڈ کے نام سے مشرق وسطیٰ میں ایران کی جانب سے لڑ رہی ہے۔ محقق اور تجزیہ کار لوکاس ویبر کا ماننا ہے کہ یہی تنظیمیں شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیوں اور پراکسی فورسز کے استعمال نے داعش جیسے گروپوں کی ناراضگی میں اضافہ کیا ہے جب کہ اس طرح ایران نے خود بھی انہیں جوابی کارروائی کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ نا صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ داعش خراسان کا ایران میں اس طرح کے حملوں سے وہ نہ صرف ایران سے دشمنی نکال رہی ہے بلکہ تہران اور کابل کے تعلقات کو خراب کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں انتشار کیوں بڑھ رہا ہے؟
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملحقہ ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان ایک اکثریتی بلوچ سنی صوبہ ہے۔ یہاں حالیہ انتشار کا آغاز اس وقت ہوا جب ستمبر 2022ء میں سرکاری اہلکاروں کے مبینہ تشدد کے باعث ایک نوجوان لڑکی کی موت ہوئی۔
اس واقعے کے بعد ایران بھر میں ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ اس دوران سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں یہ خبر آئی کہ چاہ بہار میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سنی لڑکی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد تیس ستمبر 2022ء کو بھرپور مظاہرے ہوئے جس پر قابو پانے کے لیے سختی بھی کی گئی۔
ہیومن رائٹس واچ نامی ادارے نے اپنی دسمبر 2022ء کی رپورٹ میں ان مظاہروں کے دوران بارہ شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی جب کہ انسانی حقوق کے بلوچ گروپوں کی جانب سے درجنوں افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ مقامی طور پر اس دن کو “خونی جمعہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سیاسی و اقتصادی تجزیہ کار عدنان عامر پاک ایران سرحد آرپار بلوچ مسائل پر بین الاقوامی جرائد کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سنی بلوچ خطے میں اس طرح جبر کا استعمال فطری طور پر نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
ان کے بقول، “ایران میں بلوچ آبادیوں میں غیر متناسب طور پر زیادہ پھانسی کی شرح کو وسیع تر جبر کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سیستان-بلوچستان میں بلوچ نسلی اقلیت مسلسل ناانصافی اور دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ مسلسل ظلم انہیں ایران کے خلاف جنگ لڑنے والے مسلح گروہوں کے ساتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑتا۔”
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عدنان عامر نے کہا کہ ایرانی حکومت اچھی طرح سے ان معاملات کو سمجھتی ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ ایران کو اس کے نتائج کی پرواہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف عسکریت پسند تنظیمیں اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں۔
نوجوانوں کی شدت پسند تنظیموں کی جانب رغبت جیسی صورتِ حال پہلے ہی پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیوں کی وجہ بن چکی ہے۔
ایران کے شہر راسک میں حالیہ حملوں کے بعد ایران نے پاکستان کے اندر کارروائی کی تھی۔ تہران کا دعویٰ تھا کہ اس نے پاکستان کی سرزمین پر موجود جیش العدل کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ پاکستان نے نا صرف ان دعووں کو رد کیا تھا بلکہ جواب میں ایرانی حدود کے اندر جوابی کارروائی کی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان فوری بات چیت کے بعد صورتِ حال معمول پر آ گئی تھی اور اب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی تعلقات بڑھانے کے لیے اپریل میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں جس میں گیس پائپ لائن جیسے منصوبوں پر بھی بات ہو گی۔
لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود مشرق وسطیٰ میں ایران کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث ایران کے لیئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
عالمی اور مقامی سطح پر ایران اور خطے کی سیکیورٹی کو قریب سے دیکھنے والوں کا ماننا ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر ایران اور خطے کی سیکیورٹی کو قریب سے دیکھنے والوں کا ماننا ہے کہ ایران کی عالمی اور داخلی پالیسیاں اب خود ایران سمیت اس خطے کے لیے مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔