|
وائس آف امریکہ کے قائم مقام ڈائریکٹر نے وی او اے کی فارسی سروس کے صحافیوں کو ایران میں ان کی غیرموجودگی میں ‘پراپیگنڈہ’ کے جرائم پر سزا کی مذمت کی ہے۔
یہ سزائیں اس وقت منظر عام پر آئیں جب پچھلے ہفتے ہیکنگ گروپ ‘عدالت علی’ نے ایرانی محکمہ انصاف کی دستاویزات شائع کیں جن میں دکھایا گیا تھا کہ تہران کی انقلابی عدالت نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس اور کئی مغربی میڈیا گروپس کے درجنوں صحافیوں کے خلاف 2022 میں ہونے والے ایک خفیہ مقدمے میں فیصلے سنائے تھے۔
منگل کو وائس آف امریکہ کے قائم مقام ڈائریکٹر جان لپ مین نے اپنے ایک بیان میں کہا، “ایران کی طرف سے یہ اقدامات ایک ایسی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں جو انسانی حقوق یا قانون کی حکمرانی کو اہمیت نہیں دیتی۔”
بیان میں کہا گیا “یہ معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو روکنے کوششیں ہیں جن کا کھلے عام اظہار نہیں کیا جاتا۔ یہ سزائیں خواتین کے حقوق، اپنی رائے کے اعلانیہ اظہار اور ایران میں آزاد معاشرے کے محاذ اور اسے مرکزی اہمیت کے مسائل کے طور پر برقرار رکھنے میں وی او اے فارسی سروس کی کامیابی کا بھی ثبوت ہیں۔ وی او اے اپنے صحافیوں اور ان کی رپورٹنگ کے ساتھ کھڑا ہے۔”
نیویارک میں ایران کے اقوام متحدہ کے مشن نے وی او اے کی جانب سے منگل کو ای میل کی جانے والی اس درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا جس میں لیپ مین کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
افشا ہونے والی ایرانی عدالتی دستاویزات میں، جن کا وی او اے فارسی سروس نے جائزہ لیا اور اسے قابل اعتبار سمجھا ہے، وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کے گیارہ صحافیوں اور فارسی سروس کی سابق ڈائریکٹر ستارہ درخشہ سیگ کو ایرانی حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ نامزد افراد کو قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے دورانیے کی وضاحت نہیں کی گئی اور ان فیصلوں کو ایرانی پراسیکیوٹر کے دفتر کے میڈیا اور ثقافتی امور سے متعلق شعبے کو عمل درآمد کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
لپ مین نے کہا کہ “جن لوگوں کا نام لیا گیا ہے اور ان کے اہل خانہ، دونوں کے لیے وی او اے سیکیورٹی بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لے رہا ہے، اور ہم اس کے لیے بیرونی ایجنسیوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔”
وائس آف امریکہ کے جن گیارہ صحافیوں کو سزا سنائی گئی ہے، ان میں چار خواتین شامل ہیں، جن کے نام حمیدہ آرامیدہ، سارہ دہقان، فہیمہ خضر حیدری اور مہتاب واحدی راد ہیں۔ جب کہ سات مردوں کے نام یہ ہیں؛ مہدی آغا زمانی، محمد بقراتی، روزبہ بولہاری، مہدی فلاحتی، آرین ریسباف، آرش سگارچی اور پیام یزدیان۔
واشنگٹن میں مقیم وائس آف امریکہ کے فارسی سروس کے مینیجنگ ایڈیٹر سگارچی نے وی او اے کے فلیش پوائنٹ ایران پوڈ کاسٹ کے اس ہفتے کے ایڈیشن میں سزاؤں کے بارے میں دکھ کا اظہار کیا۔
سگارچی کا کہنا تھا، “ہم یہاں کوئی جرم نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اچھے شہری بننے کی کوشش کرتے ہیں اور قوانین کی پابندی کرتے ہیں (جہاں ہم کام کرتے ہیں)۔ ایرانی حکام ہم پر سیاسی لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ کے قانون کی بنیاد پر بھی صحافی کے طور پر ہمارا کام کوئی جرم نہیں ہے۔”
سگارچی اپنی سزا پوری کرنے اور امریکہ فرار ہونے سے قبل ریاست کے منظور شدہ ایک ایرانی اخبار کے چیف ایڈیٹر کے طور پر اپنے کام کی بنا پر تقریباً تین سال ایک ایرانی جیل میں گزار چکے ہیں۔ اس سوال پر کہ آیا تازہ ترین سزا ان کے وی او اے فارسی سروس کے کام پر کوئی اثر ڈالے گی۔
انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ” یہ میرے لیے پہلی بار نہیں ہوا۔ ہم بطور صحافی خبر کے ساتھ غیر جانب دار اور متوازن رہنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اس خبر کے ساتھ بھی۔ اس خبر کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ہم صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔”
ہیک کی گئی دستاویزات میں مغربی خبر رساں اداروں کے لیے کام کرنے والے 30 سے زیادہ پرشین صحافیوں کا نام پراپیگنڈہ کے جرم میں سزا پانے والوں میں شامل ہے۔ ان میں وی او اے کے سسٹر نیٹ ورک ریڈیو فردا، بی بی سی فارسی، ایران انٹرنیشنل اور منوتو کے صحافی شامل ہیں۔
برطانیہ اور آئرلینڈ میں صحافیوں کی ایک ٹریڈ یونین، نیشنل یونین آف جرنلسٹس نے ایران میں صحافیوں کی سزاؤں کی خبر کے انکشاف پر اپنے ردعمل میں ایران کے خلاف بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
(وی او اے نیوز)