|
اسرائیل نے ایران کے غیر معمولی حملے کا جواب دینے اور حماس کے خلاف اپنی جنگ میں غزہ کے گنجان آباد علاقے رفح میں فوجی بھیجنے کا عزم ظاہر کیا ہے ،لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ وہ بیک وقت دونوں مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو دونوں محاذوں پر آگے بڑھنے کے لیے پرعزم دکھائی دئیے ہیں لیکن انھوں نے دونوں محاذوں کے لئے کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی ہے۔
انہیں ممکنہ طور پر تہران کے ڈرون اور میزائل حملے کے بعد اپنے سب سے اہم اتحادی امریکہ کی جانب سے تحمل سے کام لینے کی اپیلوں کے ساتھ ساتھ محصور غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے مطالبوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
کیا اسرائیل انتظار کرسکتا ہے؟
تجزیہ کاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی فوج، جو پہلے ہی غزہ میں حماس اور خطے میں دوسرے مقامات پر ایران کے حمایت یافتہ گروپس سے لڑ رہی ہے، ایران کے خلاف فعال لڑائی برقرار نہیں رکھ سکتی۔
سیکیورٹی سے متعلق مشاورتی ادارے،سیکورٹی کنسلٹنسی لی بیک انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر مائیکل ہورووٹز نے کہا کہ “اسرائیل بیک وقت میں رفح میں جنگ اور ایران کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کر سکے گا۔”انہوں نے کہا کہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ہفتے کے روز ایرانی حملے کے بعد سے، اسرائیلی جنگی کابینہ کی یکے بعد دیگرے میٹنگز کے بعد جو عوامی بیانات سامنے آئے ہیں ان میں اسرائیل کے منصوبوں کے بارےمیں بہت کم وضاحت کی گئی ہے ۔
اس کے بجائے، ان میٹنگز نے زیادہ تر کابینہ کےاندر شدید اختلافات کو اجاگر کیا۔کچھ جوشیلےوزراء نے تہران کو سزا دینے کےلیے انتقامی کارروائی اور رفح پر فوری حملے کا مطالبہ کیا،جبکہ دوسرے اسرائیل کےلیے انتظار کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسرائیل کےلیے متبادل راستے
اسلحے پر کنٹرول اور پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق واشنگٹن میں قائم ادارے ، سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفریشن کے پالیسی ڈائریکٹر جان ایرتھ نےکہا فی الحال اسرائیل کو ایران کے کسی دوسرے براہ راست حملے کا خطرہ درپیش نہیں ہے اور اس کے پاس اپنے اگلے اقدامات پر غور کرنے کا وقت موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اسرائیلی رہنما ایسے متبادل طریقے تلاش کریں جن سے دیرینہ دشمن ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو اور بحران سے بچنے کا موقع فراہم ہو سکے۔
ایران کا موقف ہےکہ اس حملے کے ساتھ، جس میں سے زیادہ تر ڈرونز اور میزائیلوں کو رو ک لیا گیا تھا، تہران نے یکم اپریل کو دمشق پر اس حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنا حساب برابر کر دیا ہے، جس میں دو جنرلوں سمیت ایرانی پاسداران انقلاب کے سات ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
کیا ایرانی حملے سے رفح آپریشن متاثر ہوا ہے ؟
اسرائیلی میڈیا نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ رفح آپریشن کو ،جس کا طویل عرصے سے خدشہ چلا آرہا ہے،اس ہفتے شروع ہونا تھا لیکن ایرانی حملے نےمنصوبوں کو متاثر کر دیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے زور دیاہے کہ وہ ایرانی حملے کا جواب دے گی۔ فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ “ہم اسے موقع پر اور اپنی مرضی کے وقت پر کریں گے۔”
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ رفح میں حماس کی بٹالینز کو تباہ کرنے کے لیے، وہاں پناہ لینے والے تقریباً پندرہ لاکھ فلسطینیوں کی صورتحال پر بین الاقوامی تشویش کے باوجود، اس دور دراز جنوبی شہر میں اپنی زمینی فوج ضرور بھیجے گا۔
وہاں پناہ گزین فلسطینیوں میں سےبیشتر غزہ میں دوسرے مقامات پر ہونے والے تشدد کے باعث بے گھر ہوئے ہیں۔
رفح حملے کے سلسلے میں جاری اقدامات
اب جب وسطی غزہ میں لڑائی اور بمباری جاری ہے، اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کو تباہ حال شمال میں واپس جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
پیر کے روز ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے “رفح میں آپریشن سے پہلے اٹھائے جانے والے اقدامات، خاص طور پر شہریوں کے انخلاء” پر بات کرنے کے لیے ایک میٹنگ کی قیادت کی۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع نے جن 40 ہزار خیموں کے ٹینڈر طلب کیے تھے، ان میں سے 30 ہزار خیمے پہلے ہی حاصل کر لیے گئے ہیں ،اور وہ ایک دو ہفتوں میں رفح کے قریب ، ممکنہ طور پر شہر سےبے دخل کیے گئے لوگوں کے لیے نصب کر دئے جائیں گے۔
انہی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی، مصری اور قطری ثالثوں کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کی ناکام کوششوں کے نتیجے میں مجوزہ حملے میں تیزی آسکتی ہے ۔
رپورٹس کے مطابق، اس ماہ کےشروع میں قاہرہ میں پیش کی گئی تازہ ترین تجویز پر حماس کے ردعمل کے بعد نیتن یاہو کو یقین ہو گیا ہے کہ حماس کو، جس کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے نے جنگ شروع کی تھی ۔کسی معاہدے تک پہنچنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
لیکن، ایرتھ نے خبردار کیا کہ ایسی پیش رفت سے رفح حملے کے لیے کسی ٹائم لائن کا اندازہ لگانے کی کوشش محض “قیاس آرائی” ہو گی ۔
اسرائیل کے لیے سفارتی خطرات کیا ہیں۔؟
اگرچہ بین الاقوامی برادری نے غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں پر تنقید کی ہے، تاہم ایران کی جانب سے سینکڑوں ڈرونز اور میزائلوں کے حملے کےنتیجے میں اسرائیل کےلیے حمایت ظاہر ہوئی ہے ۔
رفح میں کوئی بھی زمینی کارروائی اس طرح کےسفارتی فائدے کو باآسانی زائل کر سکتی ہے ، لیکن ہورووٹز نے دلیل دی کہ اسرائیل غزہ میں کارروائی کے لیے عالمی یکجہتی کے اس لمحے سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی اتحادی رفح پر کسی حملے پر آنکھیں بند بھی کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے میں یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ “اسرائیل ایران کے خلاف جوابی کارروائی نہ کرے ” تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ منظر نامہ خاصاناممکن دکھائی دیتا ہے۔ “
اسرائیل میں منقسم رائے عامہ
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے منگل کو جاری کیے گئے ایک سروے میں شامل افراد میں سے، 48 فیصد نے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ایران کے خلاف انتقامی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ 52 فیصد اس کے خلاف تھے۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ رفح حملے کی حمایت، اسرائیل۔امریکہ تعلقات کے لیے خطرے تک کے تناظر میں ، 44 فیصد ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔