|
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل اور اس کی فوج نے 1948 کے اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ “نسل کشی کنونشن” کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جس کنونشن کا حوالہ دیا ہے اس میں نسل کشی سے مراد “کسی قوم، نسلی یا مذہبی گروپ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جانے والی کارروائیاں” ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ “مکمل طور پر غلط اور جھوٹ” پر مبنی ہے۔ اسرائیل نے انسانی حقوق کے نگراں ادارے کو “افسوسناک اور جنونی تنظیم” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
امریکہ نے، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک، کہا ہے کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نتائج سے متفق نہیں ہے۔
محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے،”ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی معلوم ہوتا ہے کہ نسل کشی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔”
تقریباً 300 صفحات پر مشتمل ایمنسٹی کی رپورٹ میں 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والے نو ماہ کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی نے کہا کہ وہ اسرائیلی حکام کے سینکڑوں “غیر انسانی اور نسل کشی کے بیانات” کے ساتھ ساتھ غزہ کی زمینی رپورٹس کی بنیاد پر اپنے نتیجے پر پہنچا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اپریل 2024 کے درمیان 15 اسرائیلی فضائی حملوں میں 334 شہری مارے گئے، جن میں 141 بچے بھی شامل ہیں۔
تاہم، تنظیم کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی بھی حملے کا مقصد فوجی تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے بڑے پیمانے پر انخلاء کے احکامات، جن کے نتیجے میں غزہ کے 23 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور انسانی امداد کی فراہمی پر پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات، سوچے سمجھے انداز میں فلسطینیوں کی تباہی اور “سست رو موت” کا باعث بن رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ پچھلے سال اس وقت شروع ہوئی جب عسکریت پسند تنظیم حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کر دیا جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں کم از کم 44,500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔
اس تعداد میں یہ واضح نہیں ہے کہ مرنے والوں میں کتنے جنگجو شامل تھے۔
دوسری طرف اسرائیل کا ثبوت فراہم کیے بغیر کہنا ہے کہ اس نے 17,000 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
بدھ کو جنوبی غزہ کے مہاجرین کے ایک کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں 21 لوگ ہلاک اور 28 زخمی ہو گئے جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اس کارروائی میں “دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث” حماس کے سینئر عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا۔
یہ اسرائیلی کارروائی مواسی کے وسیع ساحلی کیمپ پر ہوئی جہاں لاکھوں بے گھر افراد رہائش پذیر ہیں۔
قریبی شہر خان یونس کے نصر ہسپتال کے ڈائریکٹر عاطف الحوت نے ہلاکتوں اور زخمی افراد کی تعداد کی تصدیق کی ہے۔
کم از کم 15 لاشیں اسپتال لائی گئیں، لیکن مرنے والوں کی صحیح تعداد کا تعین مشکل تھا کیونکہ بہت سے ہلاک ہونے والے افراد کے ٹکڑے ہو چکے تھے، کچھ کے سر نہیں تھے یا وہ بری طرح جھلس گئے تھے۔
خبر رساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق صحت کے حکام نے بتایا کہ اس سے قبل غزہ میں دیگر مقامات پر ہونے والے حملوں میں چار بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے طیارے نے اس علاقے میں “دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث” حماس کے سینئر عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا۔
حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے غزہ کے وسیع علاقوں کو تباہ کر دیا ہے اور 23 لاکھ کی آبادی میں 90 فیصد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
(اس خبر شامل معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز خبررساں اداروں سے لی گئی ہیں)