|
برطانیہ میں جمعرات کو ہونے والے مقامی حکومتوں کے الیکشن کو حکمران کنزرویٹو پارٹی کے لیے عام انتخابات سے قبل ایک بڑی آزمائش قرار دیا جا رہا ہے۔
مبصرین پہلے ہی اس بات کا اشارہ کر رہے ہیں کہ برطانیہ کے سیاسی حالات میں قدامت پسند پارٹی آئندہ عام انتخابات میں اپنے 14 سال سے جاری اقتدار کو برقرار نہیں رکھ پائے گی۔
وزیرِ اعظم رشی سونک اس بات کی توقع کریں گے کہ ان کی پارٹی کے چند اہم میئرز الیکشن جیتنے میں کام یاب ہو جائیں کیوں کہ یہ کامیابیاں ممکنہ طور پر اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل کنزرویٹو پارٹی کی قیادت میں تبدیلیوں کی چہ مگوئیاں ختم کر سکتی ہے۔
دوسری جانب لیبر پارٹی کے سربراہ اور قائدِ حزبِ اختلاف کیئر اسٹارمر چاہیں گے کہ جمعرات کو ہونے والے مقامی الیکشن کے نتائج گزشتہ دو برس کے دوران رائے عامہ کہ ان نتائج کی تائید کریں گے جن کے مطابق لیبر پارٹی 2010 کے بعد پہلی بار پھر اقتدار میں آسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سیاسیات کے پروفیسر روب فورڈ کا کہنا ہے کہ اس بار ہونے والے مقامی حکومتوں کا قومی تناظر لیبر پارٹی کے لیے بہت اچھا اور قدامت پسندوں کے لیے بہت برا ہے۔
برطانیہ میں عام طور سیاسی جماعتیں مقامی الیکشن میں اپنی کارکردگی کو عام انتخابات سے متعلق توقعات اور کامیابی کے امکانات کے لیے ایک ٹھوس اشارے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ کئی بار ان میں ہونے والی کامیابی کو قومی سطح پر کامیابی کے روشن امکان کے طور پیش کیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اس وقت قدامت پسندوں کو یہی صورتِ حال درپیش ہے۔ مقامی الیکشن لڑنے والے 1000 کنزرویٹو امیدواروں کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ ان میں سے نصف جیت نہیں پائیں گے۔
یہ رائے رکھنے والے مبصرین 2021 کے لوکل الیکشن کی مثال بھی دیتے ہیں جب اس وقت کے وزیرِ اعظم کی جانب سے کرونا وائرس کی ویکسین کے اجرا کے اعلان کے بعد ان کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی تھی۔
قومی سیاسی تناظر کے ساتھ ساتھ جمعرات کو ہونے والے مقامی الیکشن کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ ان انتخابات میں ووٹر فیصلہ کریں گے کہ کون ان کی روز مرہ زندگی سے متعلق صفائی کے نظام، سڑکوں کی حالت اور آئندہ برسوں کے دوران جرائم کی روک تھام جیسے اہم امور کون چلائے گا۔
لیکن کیوں کہ کے یہ انتخاب قومی الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل ہو رہے ہیں اس لیے انہیں قومی سیاست کے تناظر میں زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
یہاں ان الیکشن سے متعلق پانچ اہم پہلوؤں کی تفصیل دی جارہی ہے۔
لوکل الیکشن ہیں کیا؟
سلطنتِ برطانیہ یا یونائیٹڈ کنگڈم (یوکے) جزائر پر مشتمل ہے جس میں ’گریٹ برٹن‘ کہلانے والا پورا جزیرہ شامل ہے۔ اس جزیرے کے تین حصے انگلینڈ یا انگلستان، ویلز اور اسکاٹ لینڈ جب کہ جزیرۂ آئرلینڈ کے شمالی حصہ یعنی نارتھ آئر لینڈ بھی شامل ہے۔
جمعرات کو انگلینڈ اور ویلز میں لوکل الیکشن ہو رہے ہیں جس میں مقامی حکومتوں کے میئر اور پولیس اینڈ کرائم کمشنرز کا انتخاب کیا جائے گا۔
اس ووٹنگ کو عام انتخابات سے قبل رائے عامہ کا رجحان جاننے کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
برطانیہ کی موجودہ حکومت کی مدت جنوری 2025 تک ہے تاہم وزیرِ اعظم رشی سنک کسی بھی وقت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ رشی سنک پہلے ہی 2024 کے آخری نصف میں الیکشن کرانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
اس الیکشن میں لندن کے میئر صادق خان سمیت متعدد میئرز کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہوگا۔ مبصرین کے مطابق صادق خان کے تیسری بار میئر لندن منتخب ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ 100 مقامی کونسلز اور 40 مقامی پولیس اینڈ کرائم کمشنرز کا انتخاب بھی ہوگا۔
لوکل الیکشن کے ساتھ ساتھ انگلینڈ میں برطانوی پارلیمنٹ کے حلقے بلیک پول ساؤتھ کا ضمنی انتخاب بھی ہو رہا ہے۔
اس نشست کو لیبر پارٹی کا مضبوط حلقہ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن 2019 میں قدامت پسند امیدوار نے یہ نشست جیت لی تھی۔ اس انتخاب کے نتائج آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے جب کہ لندن کے میئر کے الیکشن کا نتیجہ ہفتے تک متوقع ہے۔
برطانیہ میں شامل اسکاٹ لینڈ اور نارتھ آئرلینڈ میں مقامی انتخاب کا انعقاد نہیں ہو رہا ہے۔
رشی سونک کے مستقبل کا سوال؟
برطانیہ کے مقامی اتنخاب کے نتائج ممکنہ طور پر رشی سونک کے سیاسی مستقبل پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ سونک نے 2022 میں صرف 45 دن تک وزیرِ اعظم رہنے والی لز ٹرس کے مستعفی ہونے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔
سونک نے لز ٹرس کے معاشی پالیسوں کے اثرات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اکتوبر 2022 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ان سے بہتر کارکردگی کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم اب تک کے رائے عامہ کے جائزوں کو اگر درست مان لیا جائے تو ان کے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی ریٹنگ میں بہتری نہیں آئی ہے۔
ایسے حالات میں جب کنزرویٹو پارٹی اپنی سب سے بڑی انتخابی شکست کی جانب دکھائی دے رہی ہے، اس بارے میں بھی چہ مگوئیاں بڑھ رہی ہیں کہ جمعرات کے انتخابات کے نتائج اگر اچھے نہیں آتے تو انہیں اپنی پارٹی ہی میں قیادت کی جنگ لڑنا ہو گی۔
رشی سونک کی قیادت برقرار رکھنے کے لیے شمال مشرقی انگلینڈ میں ویسٹ مڈ لینڈز اور ٹیز ویلی کے میئر کے الیکشن کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ان مقامی حلقوں پر قدامت پسند میئر برقرار رہتے ہیں تو انہیں بھی اپنی قیادت برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ان کے مشکل میں پڑنے کی صورت میں رشی سونک کو بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کیا لیبر حکومت میں آنے والے ہیں؟
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو آئندہ حکومت سازی کے لیے لیبر پارٹی کو سیاسی مشکلات کا ایک پہاڑ سر کرنا ہو گا۔
سن 1935 کے بعد سے 2019 میں لیبر پارٹی کی کارکردگی بد ترین رہی ہے۔ بائیں بازو کے کہنہ مشق سیاست داں جیرمی کوربن کے پانچ سال بعد لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے کیئر اسٹارمر نے لیبر پارٹی کو برطانوی سیاست میں مرکزی حیثیت دلانے کی کوشش کی ہے۔
اگر رائے عامہ کے جائزے حقیقت سے قریب ہیں تو اسٹارمر کا محتاط رویہ واضح طور پر نتیجہ خیز رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ لیبر پارٹی سے متعلق ویسا جوش و جذبہ تاحال نظر نہیں آتا جو 1997 کے انتخابات سے قبل نظر آیا تھا جس میں لیبر وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کا انتخاب ہوا تھا۔
اس کی ایک وجہ معاشی اعبتار سے مشکل حالات ہو سکتے ہیں۔ تاہم اسٹارمر جو کہ انسانی حقوق کے ایک وکیل ہیں ان کی شخصیت میں اپنے پیش رو لیبر رہنماؤں کی طرح زیادہ جارحانہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود ان کی توقع ہو گی کہ لیبر پارٹی نارتھ انگلینڈ اور مڈ لینڈ کے ان حلقوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے جو کوربن کے دور میں اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔
لیبر پارٹی کو ایک اور مسئلے کا سامنا ہے کہ غزہ تنازع پر اس کے مؤقف کی وجہ سے روایتی طور پر مسلمانوں میں پائی جانے والی جماعت کی حمایت کتنی متاثر ہوتی ہے۔
ووٹر کیا کرتے ہیں؟
سن 1997 کے الیکشن میں ٹونی بلیئر کی غیر معمولی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ بعض ووٹرز نے اپنی پسندیدہ پارٹی کے بجائے اس امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا جو قدامت پسند مدمقابل کو ہرا سکتا ہو۔ اسے سیاسی مبصرین نے ’ٹیکٹیکل ووٹنگ‘ کا نام دیا تھا۔
ووٹنگ کا یہ رجحان حالیہ برسوں میں بھی سامنے آیا ہے اور عام انتخابات میں کلیدی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ رجحان عام طور پر جنوب مغربی انگلینڈ کے ان حصوں میں ہو سکتا ہے جہاں لبرل ڈیموکریٹس جیسی چھوٹی پارٹیوں کے حامیوں میں لبرل پارٹی کے لیے بھی ہمدردیاں پائی جاتی ہیں۔
پورے برطانیہ میں ایسے قدامت پسند امیدواروں کے لیے بھی یہ رجحان پریشان کُن ہوگا جو اپنی نشستوں کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔
دائیں بازو کا چیلنج؟
قدامت پسندوں کو صرف بائیں بازو کی سیاسی قوتوں سے چیلنجز کا سامنا نہیں ہے۔ ریفارم یو کے نامی دائیں بازو کی جماعت بھی اسے سخت مقابلہ دے سکتی ہے۔
اگرچہ ریفارم یو کے نے چند ہی نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں لیکن سخت مقابلے کی وجہ سے کنزریٹو اسے ملنے والی حمایت کی وجہ سے فکر مند ہوں گے۔
ریفارم یو کے امیگریشن اور بریگزٹ جیسے ایشوز پر سخت مؤقف رکھتی ہے اور پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ وہ عام انتخابات میں کنزرویٹو امیدواروں کا سخت مقابلہ کرے گی جیسا 2019 میں بریگزٹ پارٹی نے کیا تھا۔ اس حوالے سے بلیک پول ساؤتھ کے ضمنی الیکشن میں ہونے والا مقابلہ اہم ہو گا۔
اس خبر کے لیے مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔