|
نئی دہلی نے جمعرات کو کہا کہ وہ بھارت میں انسانی حقوق پر تنقید سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اس نے رپورٹ کو انتہائی متعصبانہ قرار دیاہے۔
اس ہفتے کے شروع میں انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ سالانہ جائزے میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ سال بھارت کی ریاست منی پور میں “نمایاں” زیادتیاں اور ملک کے باقی حصوں میں اقلیتوں، صحافیوں اور اختلافی آوازوں کے خلاف زیادتیاں سامنے آئیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جسیوال نے جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ “ہمارے خیال میں انتہائی متعصبانہ، اور بھارت کے بارے میں انتہائی ناقص فہم کی عکاس ہے۔”
جیسوال نے صحافیوں سے کہا،“ہم اسے (رپورٹ کو) کوئی اہمیت نہیں دیتے اور آپ پر بھی ایسا ہی کرنے پر زور دیتے ہیں ۔”
اسی بریفنگ کے دوران ان سے ایک سوال غزہ میں اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں بڑھتے ہوئے مظاہروں کے بارے میں پوچھا گیا۔اس کے جواب میں جیسوال نے کہا کہ “آزادی اظہار، ذمہ داری کے احساس اور عوامی تحفظ اور امن و امان کے درمیان ایک درست توازن ہونا چاہیے۔”
جیسوال نے مزید کہا, “خاص طور پر جمہوریتوں کو دوسری ساتھی جمہوریتوں کے حوالے سے سمجھ بوجھ کا اظہار کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ہم سب کے بارے میں کوئی بھی رائے بہر طور اس بنیاد پر قائم کی جاتی ہے کہ ہم اندرون ملک کیا کرتے ہیں نہ کہ ہم بیرون ملک کیا کہتے ہیں۔”
اگرچہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک مضبوط شراکت داری ہے، اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ نئی دہلی چین کے مقابلے میں ایک اسٹریٹجک طاقت بن جائے، تاہم حال ہی میں ان تعلقات میں کچھ معمولی رخنے پیدا ہوئے ہیں۔
مارچ میں نئی دہلی نے بھارتی شہریت کے ایک متنازعہ قانون کے نفاذ پر امریکی خدشات کو غلط اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا تھا اور حزب اختلاف کی عام آدمی پارٹی کے ایک کلیدی لیڈر کی گرفتاری پر امریکی محکمہ خارجہ کے تبصروں پر اعتراض کیا تھا۔
گزشتہ برس واشنگٹن نے بھارتی کارندوں پر امریکہ میں موجود ایک سکھ علیحدگی پسند لیڈر کے خلاف قتل کی ایک ناکام سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور نئی دہلی کو اس بارے میں انتباہ کیا تھا۔
بھارت نے کہا تھا کہ اس نے واشنگٹن کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دیں ہیں لیکن تفتیش کی صورت حال یا نتائج کے بارے میں کوئی اپ ڈیٹ فراہم نہیں کیا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔