ترک صدر رجب طیب اردگان نے 1997 میں اسلامی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت میں ملوث عمر قید کی سزا پانے والے 7 جنرلز کو معاف کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فیصلے میں جنرلز کی بڑھتی عمر اور صحت کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں معافی دی گئی، جنہیں 2018 میں ایک پیچیدہ مقدمے کی سماعت کے بعد سزا سنائی گئی تھی۔
جرنیلوں کو معافی ایسے وقت میں دی گئی جب ایک اور قانونی کارروائی میں انقرہ کی ایک عدالت نے کرد رہنما صلاح الدین دیمیرتاس کو ریاستی اتحاد کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر جرائم کے الزام میں 42 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مارچ کے آخر میں بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت سی ایچ پی ایک طویل عرصے سے جرنیلوں کی رہائی کی وکالت کر رہی تھی، پارٹی کے رہنما اوزگور اوزیل نے ایکس پر لکھا کہ جب فیصلے میں کچھ وقت لگا لیکن منصفانہ تھا۔
جن جرنیلوں کو معاف دی گئی ان میں سے سیوک بیر بھی شامل ہیں جنہیں بغاوت کی کوشش کا سرغنہ سمجھا جاتا تھا، وہ صحت کے مسائل کی وجہ سے پہلے ہی رہا کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 2018 میں ترکیہ کی ایک عدالت نے 1997 میں بننے والی پہلی اسلامی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت میں ملوث سابق آرمی چیف سمیت 21 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ترک خبر رساں ادارے کے مطابق عمر قید کی سزا پانے والے 86 سالہ جنرل اسماعیل حقی کردئی 1994 سے 1998 تک ترک فوج کے سربراہ رہے تھے، ان کے نائب جنرل سوک بیر کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔
واضح رہے 1960، 1971 اور 1980میں ترکی میں پرتشدد کامیاب فوجی بغاوت ہو چکی ہے، تاہم موجودہ صدر طیب اردگان کے خلاف 2016 میں ہونے والی بغاوت میں ناکامی کے بعد فوج کی سیاست میں مداخلت کی طاقت کافی حد تک کم ہوچکی ہے۔