|
وفاقی استغاثہ نے بتایا کہ جرمن پولیس نے منگل کے روز دو افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا جن پر قرآن کو نذر آتش کرنے کے خلاف سویڈش پارلیمنٹ کے قریب پولیس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا۔
مشتبہ افراد کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ابراہیم ایم جی اور رامین این کے ناموں سے ہوئی ہے۔ فیڈرل پراسیکیوٹر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رامین این کو مشرقی شہر گیرا سے حراست میں لیا گیا۔
جرمنی کے رازداری کے قوانین کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد کی شناخت ان کے پہلے ناموں اور ناموں کے پہلے حروف سے کی گئی ہے۔
استغاثہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش سے وابستہ افراد کو 2023 کے وسط میں سویڈن اور دیگر ممالک میں قرآن جلانے کے ردعمل میں یورپ میں حملہ کرنے کا کام سونپا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں نے داعش کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہوئے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں پارلیمنٹ کے قریب پولیس اور دیگر لوگوں پر حملے کی تیاری کی تھی، جس میں حملے کے مقام کے لیے آن لائن ریسرچ بھی شامل تھی۔ انہوں نے ہتھیار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی، مگر وہ اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہچا سکے۔
اسلام مخالف کارکنوں نے سویڈن میں قرآن کو کھلے عام نذر آتش کیا تھا، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کو ہوا دی اور اسلامی انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکیاں دیں گئیں۔ اکتوبر میں، ایک مسلح شخص نے برسلز میں ایک میچ سے قبل سویڈن کے دو فٹ بال شائقین کو ہلاک کر دیا تھا۔
دھمکیوں اور ردعمل کے خدشات کے پیش نظر سویڈش حکام کو اگست میں دہشت گردی کے بارے میں اپنی وارننگ کو دوسری اعلیٰ ترین سطح پر لے جانا پڑا تھا۔ انہیں اسی طرح کی بڑھتے ہوئے خدشات کا سامنا تھا جیسا کہ 2006 میں ڈنمارک کو پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کی طرف سے تھا۔
اس کے ردعمل میں ڈنمارک کے قونصل خانوں اور سفارت خانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہوئے اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کی طرف سے خاکے بنانے والے کارٹونسٹ کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈنمارک کے حکام نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ملک کے آزادی اظہار کے قانون کے تحت مذکورہ خاکوں کو تحفظ حاصل ہے جسے مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر مسترد کر دیا گیا۔
استغاثہ نے بتایا کہ ابراہیم ایم جی نے رامین این کے ساتھ مل کر اگست 2023 میں داعش سے منسلک ایک گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے شمالی شام کی ایک جیل میں قید ایک رکن کی مدد کے سلسلے میں داعش کے لیے 2000 یورو ( 2170 ڈالر) کے عطیات جمع کیے تھے۔
گرفتار کیے گئے افغان باشندوں پر دہشت گرد تنظیم کو مدد فراہم کرنے، جرم کی سازش کرنے اور تجارتی قوانین کی خلاف ورزی سمیت متعدد جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے اے پی سے معلومات حاصل کی گئیں ہیں)