|
ویب ڈیسک __اسرائیل کے حملے میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کی ہلاکت پر خطے کی سنی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو ان ممالک کے عوام اور حکومتوں میں تقسیم کی عکاس ہے۔
عرب ممالک میں عوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے جب کہ حکومتیں یا تو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانا چاہتی ہیں یا حزب اللہ کے سرپرست ایران کے شدید مخالف ہیں۔
حسن نصراللہ 32 برس تک حزب اللہ کے سربراہ رہے اور اس دوران انہوں نے اسرائیل اور مغربی ممالک کے علاوہ خطے میں بھی اپنے کئی دشمن بنائے۔ خلیجی ممالک اور عرب لیگ نے 2016 میں حزب اللہ کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیا تھا۔ تاہم عرب لیگ نے رواں برس کے آغاز میں دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
سعودی عرب نے اتوار کو جاری کیے گئے بیان میں لبنان کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا اور لبنان کی سالمیت کے احترام اور علاقائی امن و امان کے تحفظ پر زور دیا۔ لیکن اس بیان میں نصراللہ کی ہلاکت کا ذکر نہیں تھا۔
قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے حسن نصراللہ کی ہلاکت پر مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔ امارات اور بحرین نے 2020 میں اسرائیل سے تعلقات بحال کیے تھے۔ اس سے قبل 2011 میں بحرین نے شیعہ کمیونٹی کی جانب سے جمہوریت کی حمایت میں اٹھنے والی تحریک کو دبا دیا تھا۔
تاہم بحرین میں ایران کے حامی ‘لولہ ٹی وی’ نے ایسی ویڈیوز چلائی ہیں جن میں مختصر ہجوم دکھائے گئے ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ نصراللہ کے سوگ میں گھروں سے نکلے ہیں۔ چینل کا کہنا ہے کہ بحرینی حکومت نے مظاہرین پر ’حملے‘ کیے اور بعض کو گرفتار بھی کیا۔
بحرین میں حزبِ مخالف کی ویب سائٹ ‘بحرین مرر’ کی رپورٹ کے مطابق بحرین نے حسن نصر اللہ کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کرنے والے ایک شیعہ مذہبی عالم کو گرفتار کیا ہے۔ ‘رائٹرز’ کے مطابق ان اطلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں مصر کے حکمران سیسی نے کہا ہے کہ خطے کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے بھی اپنی تقریر میں حسن نصر اللہ کا ذکر نہیں کیا۔
شام اور عراق نے حزب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔
غم اور تنقید
عرب ممالک میں ہفتے سے حسن نصر اللہ کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں ان کی موت پر اظہارِ افسوس کیا جارہا ہے۔
عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد بن حماد الخلیلی نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ان کا ملک ’حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کے انتقال پر سوگ میں ہے کیوں کہ وہ تین دہائیوں سے وہ صہیونی منصوبوں میں حلق کے کانٹے کی طرح رکاوٹ تھے۔‘‘
تاہم کئی سوشل میڈیا صارفین نے حزب اللہ کے شام کی خانہ جنگی میں کردار کو بنیاد بناتے ہوئے نصر اللہ پر تنقید بھی کی ہے۔ ایران اور روس کے ساتھ حزب اللہ نے بھی باغیوں سے لڑنے میں شام کے صدر بشار الاسد کی مدد کی ہے۔
ایک عراقی صحافی عمر الجمال کا کہنا تھا کہ ’’نصراللہ نے ہزاروں افراد کو نشانہ بنایا ہے، کیا وہ مسلمانوں کی ہمدردی کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
امارات کے صحافی سیف الدرعی نے بھی ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں شام کے شہر ادلب میں لوگوں کو نصراللہ کی موت پر ’خوشی‘ کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’’حزب اللہ نے وہ کیا ہے جو یہودیوں نے شام میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ نہیں کیا۔‘‘
سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے شاعر عبد اللطیف الشیخ نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ نصراللہ کی موت پر منائی جانے والی خوشی محض کسی مخالفت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ان پالیسیوں کے خلاف فطری ردِ عمل ہے جن کے خلاف لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
بعض شخصیات نے نصر اللہ اور اسرائیل پر تنقید میں توازن رکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔
مصر سے تعلق رکھنے والی ایک ٹی وی میزبان لامس الحدیدی نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’’اس موقعے پر خوشی اور مسرت کا اظہار دشمن کی کامیابی کا جشن منانا ہے، یہ عرب قوم کو تقسیم کرنے اور لبنان و غزہ کے لوگوں سے غداری کے مترادف ہے۔‘‘
انہوں ںے لکھا کہ ہم اپنے اختلافات ایک طرف رکھیں اور ایران کو بھلا کر یہ سوچیں کہ اس وقت ایک عرب ملک پر حملہ کیا جارہا ہے۔
اس خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔