|
دنیا بھر کے مسلمانوں نے بدھ کو عید الفطر منائی۔ لیکن غزہ کے بدترین ہوئے بحران اور چھ ماہ کی جنگ کے بعد رفح شہر میں اسرائیل کی متوقع فوجی کارروائی نے عید کی تقریبات کو متاثر کیا ۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں امام عبدالرحمن موسیٰ نے کہا کہ ہمیں فلسطین میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ “انہیں بلا جواز جارحیت اور بے تحاشہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔”
ترکیہ کے دار الحکومت استنبول میں، ہزاروں لوگ نماز عید کے لیے آیا صوفیہ مسجد میں اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے کچھ فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور غزہ کے لوگوں کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے، جہاں اقوام متحدہ اور شراکت داروں نے خبردار کیا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو عنقریب قحط کا خطرہ لاحق ہےجب کہ وہاں بہت کم امداد کے داخلے کی اجازت ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے عید پر غزہ کی حمایت کے پیغام میں انہوں نے اسے“انسانی ضمیر کےایک رستے ہوئے زخم سے تعبیر کیا
عید الفطر کی تعطیلات سے قبل دنیا بھر کے بازار خریداروں سے کھچا کھچ بھر گئے۔ شہروں میں مقیم بہت سے لوگوں نےاپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کے لیے دیہاتوں کا رخ کیا ۔
دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک، انڈونیشیا میں، تقریباً تین چوتھائی آبادی اپنی سالانہ وطن واپسی کے لیے سفر کر رہی تھی جسے مقامی زبان میں “مدک” کہا جاتا ہے۔
سماترا جزیرے کے جنوبی سرے پر صوبہ لیمپونگ کا سفر کر نےوالے ردھو الفیان نے کہا، ” یہ اپنے گھر والوں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا ایک مثبت موقع ہے ۔ یوں سمجھیں کہ گھر سے تقریباً ایک سال دور رہنے سے ختم ہونے والی چارجنگ کو ری چارج کرنے کا موقع ۔”
آرینی دیوی نے جو دو بچوں کی ہیں کہا کہ کھانے کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود میں عید منا کر خوش ہوں۔
جکارتہ کی استقلال جامع مسجد جو جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہے، عید کی صبح نمازیوں سے بھر گئی۔
اماموں نے اپنے خطبات میں لوگوں سے غزہ کے مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی اپیل کی جو چھ ماہ کی جنگ کے بعد مصائب کا شکار تھے۔
انڈونیشیا کی مساجد کونسل کے ایڈوائزری بورڈ کی سربراہ جملی اشدیقی نے کہا، “یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے انسانی یکجہتی کےاظہار کا وقت ہے کیونکہ غزہ کا تنازع مذہبی جنگ نہیں ہے، بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔
برلن میں، بینن، گھانا، شام، افغانستان اور ترکی سے تعلق رکھنے والے نمازیوں نے انہی خیالات کا اظہار کیا۔
پاکستان اور افغانستان میں، حکام نے مساجد اور بازاروں میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کیے ۔
پانچ بچوں کی پنتالیس سالہ ماں، عذرا احمد نے کہا، “یہ ایک ایسا دن ہے جب ہم یہاں موجود ہر چیز کے لیے خود کوشکر گزار محسوس کرتے ہیں، اور ان لوگوں کو دیتے ہیں اور ان کے بارےمیں سوچتےہیں جو غریب ہیں، جنگ کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔”
ملائیشیا میں، ملائی نسل کے مسلمانوں نے ملک بھر کی مساجد میں اس کے چند ہفتےبعد عید کی نماز ادا کی جب کنوینئینس اسٹورز کی ایک چین پر فروخت ہونے والی ان جرابوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا جس پر لفظ “اللہ” چھپا ہو ا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اسے ایک گستاخی سے تعبیر کیا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے عید کے موقع پر اپنے پیغام میں اتحاد اور مصالحت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی گروہ کو مذہب یا کسی اور بنیاد پر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ” ہمیں اقدار کو فروغ دینے اور ایک باوقار قوم کی تعمیر کے اپنے عزم میں ثابت قدم، پرعزم اور غیر متزلزل رہنا چاہیے۔ “تاہم ہم اسے دوسری ثقافتوں اور طرز زندگی کی توہین کرنے، ان کو نقصان پہنچانے یا نقصان پہنچانے کا موقع نہ بنائیں ۔”
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔