Monday, December 23, 2024
ہومWorldسری لنکن انتخابات: صدر دسانائیکے کا اتحاد بھاری اکثریت سے کامیاب

سری لنکن انتخابات: صدر دسانائیکے کا اتحاد بھاری اکثریت سے کامیاب


  • مارکس نظریات رکھنے والے صدر دسانائیکے کے اتحاد ‘این پی پی’ نے 225 رکنی پارلیمان میں 159 نشستیں حاصل کی ہیں۔
  • سری لنکا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے راجہ پکسے خاندان کو انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
  • ماہرین کے مطابق انتخابات میں کامیابی کے بعد صدر انورا کمارا دیسانائیکے کو معاشی بحران میں گھرے ملک میں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا موقع مل سکے گا۔

ویب ڈیسک _ سری لنکا کے عام انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے۔

مارکس نظریات رکھنے والے صدر دسانائیکے کے اتحاد ‘این پی پی’ نے 225 رکنی پارلیمان میں 159 نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ سری لنکا کی تاریخ میں سب سے بڑی انتخابی کامیابی ہے۔

سری لنکا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے راجہ پکسے خاندان کو انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی جماعت ‘سری لنکا پودوجانا پرامونا پارٹی’ صرف تین نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ پچھلی پارلیمان میں اس جماعت کے پاس 145 نشستیں تھیں۔

ماہرین کے مطابق انتخابات میں کامیابی کے بعد صدر انورا کمارا دیسانائیکے کو معاشی بحران میں گھرے ملک میں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا موقع مل سکے گا۔

جمعرات کو ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے صدر دسانائیکے نے کہا تھا کہ “یہ سری لنکا کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ ہمیں ایک مضبوط پارلیمنٹ کے لیے بڑے مینڈیٹ کی توقع ہے اور ہمیں یقین ہے کہ عوام ہمیں یہ موقع دیں گے۔”

صدر دیسانائیکے نے ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اس وقت کے صدر رانیل وکرما سنگھے اور اپوزیشن رہنما سجیت پریماداسا کو شکست دی تھی۔

انورا کمارا دیسا نائیکے نے قرض میں جکڑے ہوئے ملک میں جلد عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ستمبر میں پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔

سری لنکا میں قانون ساز پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور آخری عام انتخابات اگست 2020 میں ہوئے تھے۔

انتخابات سے قبل پچپن سالہ صدر دیسانائیکے نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دو ارب 90 کروڑ ڈالر کے پیکیج کی شرائط پر از سرِ نو بات چیت کا عندیہ بھی دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شمال اور مشرقی علاقوں میں آباد اقلیتی تامل کمیونٹی نے بھی صدر کی جماعت کو مینڈیٹ دیا ہے جو ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے۔

انتخابی نتائج کے بعد سری لنکا میں سیاسی استحکام کی اُمید ظاہر کی جا رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط میں ترمیم کے وعدے کے باعث غیر یقینی صورتِ حال برقرار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی اتحاد کے پاس تجربہ کار رہنماؤں کی کمی ہے جس کے باعث انہیں گورننس اور نئی پالیسیاں بنانے میں مشکلات آ سکتی ہیں۔

دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد آبادی والے ملک سری لنکا کو بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے باعث ملک دیوالیہ ہو گیا تھا۔

آئی ایم ایف کے 2.9 ارب ڈالر کے پروگرام کے باعث سری لنکا کی معیشت میں کچھ بہتری آئی ہے۔ تاہم مہنگائی اس وقت بھی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں