|
ایسوسی ایٹڈ پریس نے سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد کہا ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے خان یونس کے قریب ایک نئی خیمہ بستی تشکیل دی جارہی ہے جب کہ اسرائیلی فوج رفح پر حملے کی منصوبہ بندی کا اشارہ دے رہی ہے۔
تاہم فلسطینی محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بعد میں کہاکہ وہ خیمہ کیمپ ان بے گھر افراد کے لیے قائم کیا جا رہا تھا جو اس وقت ایک اسپتال میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اور اس کا فوجی آپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ریڈ کراس کے ایک اہلکار نے منگل کو اے ایف پی کو بتایا کہ انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو غزہ کے جنوبی شہر سے فلسطینیوں کو کسی متوقع اسرائیلی حملے سے پہلے نکالنے کے منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، لیکن موجودہ حالات میں ایسی منتقلی ممکن نہیں ہوگی۔
اسرائیلی حکومت نے کہا تھاکہ وہ رفح پر حملے سے قبل شہریوں کے انخلا کے مختلف منظرناموں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جن میں خیموں کی بستیاں بنانا بھی شامل ہیں جو لڑائی سے محفوظ رہیں گے اور جنہیں بین الاقوامی تعاون سے قائم کیا جائے گا۔
وال سٹریٹ جرنل نے اسرائیلی منصوبے کے بارے میں مصری حکام کی ایک بریفنگ کے حوالے سےرپورٹ دی تھی کہ انخلاء کا یہ آپریشن دو سے تین ہفتے تک جاری رہے گا اور اسے امریکہ، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت عرب ملکوں کے ساتھ مربوط ہو کر انجام دیا جائے گا ۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے مشرق وسطیٰ کے علاقائی ڈائریکٹر، فابریزیو کاربونی نے متحدہ عرب امارات میں ایک امدادی کانفرنس کے موقع پر کہا، “افواہ یہ ہے کہ رفح میں کسی بڑے آپریشن کا امکان بڑھ رہا ہے ۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “جب ہم غزہ کے وسطی علاقے اور شمال میں تباہی کی سطح کو دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھ نہیں سکتےکہ لوگوں کو کہاں منتقل کیا جائے گا ,جہاں انہیں مناسب پناہ گاہ اور ضروری سہولیات میسر ہوں گی۔”
اس وقت بڑے پیمانے کا انخلا ممکن نظر نہیں آتا
فابریزیو کاربونی نے کہا کہ “اس وقت جو معلومات موجود ہیں، ہمیں اس (بڑے پیمانے کا انخلاء) ممکن دکھائی نہیں دیتا۔”
کاربونی نے منگل کو دبئی انٹرنیشنل ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کانفرنس (DIHAD) میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ فوجی آپریشن بہر طور تباہ کن نتائج کا باعث بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ “تباہی کی سطح کے پیش نظر، اس بات کے پیش نظر کہ لوگ تھکے ہوئے ہیں، ان میں سے کچھ زخمی اور بیمار ہیں، اور خوراک اور ضروری خدمات تک محدود رسائی کے پیش نظر ، میں (انخلا) کو انتہائی چیلنجنگ سمجھتا ہوں۔”
رفح پر متوقع حملہ ایک مکمل تباہی ہوگا
منگل کو ہی، ناروے کی پناہ گزین کونسل (این آر سی) کے سربراہ نے دبئی انٹرنیشنل ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کانفرنس کے موقع پر ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی کرہ ارض پر نقل مکانی کے سب سے بڑے کیمپ کے پار، جو کہ رفح ہے، جنگ کے لیے الٹی گنتی گن رہا ہے ۔ “
جان ایگیلینڈ نے رفح کے حملے کو ایک “مکمل تباہی” قرار دیتے ہوئےکہا کہ غزہ کے اندر کام کرنے والے امدادی کارکنوں کو رفح حملے کے دوران شہریوں کے مصائب کم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،” انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے لیے کوئی معلومات نہیں، کوئی مشاورت نہیں، کوئی مشورہ نہیں، کوئی امید نہیں۔”
ایگیلینڈ نے کہا کہ غزہ میں عطیہ دہندگان کی طرف سے کوئی خبر نہیں آرہی ، انہیں اسرائیل کے مغربی سپانسرز کی جانب سے اور نہ ہی خود اسرائیل کی طرف سے کچھ سننے کو مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو سن رہے ہیں وہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کہتے ہیں کہ وہ حملہ کریں گے لیکن اس کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ عام شہری کہاں جائیںگے، امداد کیسے فراہم کی جائے گی یا رسائی کو کیسے محفوظ بنایا جائے گا۔
“ہم اس بارےمیں مکمل طور پر تاریکی میں ہیں کہ کسی تباہی تک کی اس الٹی گنتی کو کیسے کم کیا جائے۔”انہوں نے کہا۔
کوئی محفوظ جگہ نہیں
ایگیلینڈ نے کہا کہ غزہ میں اس وقت جو تھوڑی سی امداد داخل ہو رہی ہے اسے حقیقی وقت میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور ایسا کوئی محفوظ سٹاک نہیں بچا ہے جو کہ آبادی کی بڑی نقل و حرکت کی صورت میں استعمال ہو سکے۔
این آر سی کے سربراہ نے مزید کہا “کوئی اسٹاک نہیں ہے، کوئی ایندھن نہیں ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پیسے نہیں ہیں، ہم اپنے عملے کی تنخواہیں نہیں دے سکتے۔ ہم ان لوگوں کو ادائیگی نہیں کر سکتے جو خدمات فراہم کرتے ہیں۔” ۔
ایگلینڈ نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں کچھ فلسطینی شمالی غزہ کے علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں لیکن رفح میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ باقی رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ رفح سے چلے گئے ہیں ان کے لیے “شمال میں کیا منتظر ہے، صرف کھنڈرات، مکمل کھنڈرات اور نہ پھٹنے والا آرڈیننس اور، بہت سے واقعات میں، مزید بمباری،”
“اگر لوگ رفح سے نکل جائیں تو غزہ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔”
خیمہ بستی کی موجودگی پناہ کی تلاش کی جدو جہد کا مظہر
خان یونس کو حالیہ ہفتوں میں بارہا اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ جنوبی شہر پر متوقع حملے کے دوران رفح سے شہریوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے، جہاں جنگ کے دوران لاکھوں لوگوں نےپناہ لی ہوئی ہے۔
اس ٹینٹ کیمپ کی موجودگی غزہ میں پناہ تلاش کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے، جہاں تقریباً 80% لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ علاقے کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے نصف سے زیادہ نے رفح میں پناہ حاصل کی ہے۔
غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے 15 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے رفح میں پناہ لی تھی، جو کہ غزہ کا بڑا آبادی کا آکری مرکز ہے جہاں اسرائیلی زمینی دستے ابھی تک داخل نہیں ہوئے ہیں، حالانکہ ہزاروں افراد کو واپس شمال کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو دو ماہ سے رفح میں فوج بھیجنے کی بات کر رہے ہیں تاکہ غزہ کوچلانے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کا پیچھا کیا جا سکے۔
اتوار کو، انہوں نے کہا کہ موجودہ جنگ کو جنم دینے والے سات اکتوبر کے حملے کے پیچھے کار فر ما اس گروپ کو مزیددھچکا پہنچانے کے لیے اسرائیل اس پر دباؤ بڑھائےگا۔
لیکن واشنگٹن سمیت اسرائیل کے اتحادیوں نے اس خدشے کے پیش نظر رفح آپریشن کے خلاف خبردار کیا ہے کہ اس سے غزہ کے پہلے سے تباہ کن انسانی حالات مزید بگڑ سکتے ہیں ۔
غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے بے مثال حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 1,170 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 34,183 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اےپی اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔