شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے وہاں گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری ظالمانہ آمریت کا اختتام ضرور ہوا ہے، لیکن اس کے جو دور رس نتائج سامنے آئیں گے، وہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے لیے مستقبل قریب میں خوش آئند نہیں دکھائی دیتے۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر خطرہ بڑھ چکا ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت کو شدید دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔ بشار الاسد کوئی مردِ مجاہد نہیں تھے جو فلسطینی مزاحمت یا عالمِ اسلام کے لیے سینہ سپر رہے ہوں، مگر ان کی موجودگی سے ایران کو حماس اور حزب اللہ کو اسلحہ اور دیگر امداد فراہم کرنے کا ایک راستہ میسر تھا، جو اب مسدود ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ، اسرائیل نے بشار الاسد کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے فوراً بعد شام کی فوجی طاقت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا تاکہ نئے حکمرانوں کے ہاتھوں میں وہ اسلحہ نہ لگے جو اسرائیل کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا۔ مزید برآں، اسرائیلی کابینہ نے مقبوضہ گولان پہاڑیوں میں اسرائیلی شہریوں کی تعداد دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر کی ابتدائی رقم مختص کر دی گئی ہے۔ اس اقدام سے شام کے مظلوم عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، جبکہ مغربی ایشیا میں امن اور استحکام کا خواب دور کی بات ہی لگتا ہے۔