Saturday, January 4, 2025
ہومWorldشام میں پہلی بار خاتون مرکزی بینک کی سربراہ مقرر

شام میں پہلی بار خاتون مرکزی بینک کی سربراہ مقرر


  • شام میں میسا صابرین کو ملک کے سینٹرل بینک کا عبوری سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
  • بینک آف سیریا کے 1953 میں قیام کے بعد پہلی بار اس کا سربراہ کسی خاتون کو بنایا گیا ہے۔
  • میسا صابرین بشار الاسد کے دورِ حکومت میں سینٹرل بینک میں بطور ڈپٹی گورنر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

ویب ڈیسک — شام میں برسرِ اقتدار حکام نے میسا صابرین کو ملک کے سینٹرل بینک کا عبوری سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بینک کے اعلیٰ حکام نے میسا صابرین کے تقرر کی تصدیق کی ہے لیکن سرکاری طور پر تاحال اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔

سینٹرل بینک آف سیریا کے 1953 میں قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بینک کے سربراہ کے طور پر کسی خاتون کا تقرر کیا گیا ہے۔

میسا صابرین اس سے قبل بشار الاسد کے دورِ حکومت میں سینٹرل بینک میں بطور ڈپٹی گورنر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق سینٹرل بینک کے ایک ڈپارٹمنٹ کے مینیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ میسا صابرین نے عہدے کا چارج منگل کو سنبھال لیا ہے۔

ڈپارٹمنٹ مینیجر کے مطابق بینک عملے کو عملے کو ایک سرکلر موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر میسا صابرین اب بینک کے معاملات دیکھیں گی۔ ان کو یہ ذمہ داری نگراں کے طور پر دی گئی ہیں۔

ان کے بقول سرکاری سرکلر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میسا صابرین کے عبوری تقرر کی مدت کیا ہوگی۔

میسا صابرین کا سینٹرل بینک آف سیریا کی پہلی ڈپٹی گورنر کے طور پر تقرر 2018 میں کیا گیا تھا۔

مرکزی بینک میں خدمات کے علاوہ وہ دیگر کئی عہدوں پر خدمات انجام دیتی رہی ہیں جن میں دمشق کے اسٹاک ایکسچینج میں بورڈ آف ڈائریکٹرز، نیشنل اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ بورڈ، مانیٹری اینڈ کریڈٹ کونسل، ریئل اسٹیٹ سپر وژن اتھارٹی کے بورد آف ڈائریکٹرز اور سینٹرل بینک کی مینجمنٹ کمیٹی میں خدمات شامل ہیں۔

میسا صابرین سے قبل سینٹرل بینک کے سربراہ محمد عصام حذمہ تھے۔ ان کا اس عہدے پر تقرر سابق صدر بشار الاسد نے 2021 میں کیا تھا۔

صدر بشار الاسد کے لگ بھگ ڈھائی دہائیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ آٹھ دسمبر 2024 کو اس وقت ہوا تھا جب حکومت مخالف فورسز نے دارالحکومت دمشق سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف مزاحمت کا آغاز لگ بھگ 13 سال قبل 2011 میں ہوا تھا۔

ایک دہائی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں شام کی کرنسی کی قدر 90 فی صد سے نیچے آ چکی ہے۔ اس دوران ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 12 ہزار سے 15 ہزار شامی پاؤنڈ کا ہو گیا تھا۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں