|
ایک ایسے تناظر میں جب کہ بین الاقو امی برادری شام کے نئے حکمرانوں کے لیے شرائط رکھ رہی ہے، صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی حکومت سنبھالنے والا سرکردہ باغی گروپ عالمی قبولیت کے لیے افغان طالبان کی طرز پر مصالحت کا رویہ اختیار کر رہا ہے۔
شامی حکومت کا تختہ الٹنے والے گروپ ہئیت تحریر الشام کے رہنما احمد الشرع نے، جو ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی مشہور ہیں، اتوار کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام سے ملاقات کی جس کے دوران انہوں نے ملکی معیشت کی بحالی اور ملکی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے “جلد اور موثر تعاون” پر زور دیا۔
اخبار “دی ٹائمز آف لندن” کے ساتھ ایک انٹرویو میں الشرع نے کہا کہ شام کی سرزمین اسرائیل سمیت کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک “یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس” سے منسلک سینئیر تجزیہ کار اسفند یار میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گروپ نے صلح کا پیغام دیا، جو کہ افغان طالبان کے سال 2021 میں حکومت پر قبضے کے بعد دیے گئے پیغام کی مانند ہے۔ اس پیغام کے ساتھ طالبان نے اپنے آپ کو خطے کی سیاست میں اس طریقے سے شامل کیا کہ جس سے خطے کے ممالک اور عالمی طاقتیں ان کے خلاف مشتعل نہ ہوں۔
خیال رہے کہ اگست میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے ہمسایہ اور خطے کے دوسرے ملکوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ کسی کو بھی افغانستان کو کسی دوسرے ملک کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
تاہم، رواں سال جولائی میں اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اگرچہ طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی بیرونی دہشت گروپ نہیں ہے، رکن ملکوں نے رپورٹ دی ہے کہ ملک میں اس وقت دو درجن سے زیادہ دہشت گرد گروپ فعال ہیں۔
خطے کے امور کے ماہر میر نے کہا کہ گروپ نے اپنے تجربے اور طالبان طرز کے مشاہدے سے سیکھا ہے کہ بیرونی دنیا میں دشمن بنانے سے گریز کیا جائے۔ ایسا دوسرے ملکوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ کیا جائے کہ ہمیں ان سے کوئی عداوت نہیں ہے۔
میر کے مطابق عالمی اور خطے کی طاقتوں کے شام کے باغی گروپ سے نمنٹنے کے لیے کوئی بڑے مقاصد نہیں ہیں۔ لیکن وہ گروپ کا بغور جائزہ لیں گے۔
شام کے باغیوں نے ایچ ٹی ایس کے مخفف سے جانے جانے والے ہئیت تحریر الشام کی قیادت میں بارہ روز قبل دمشق پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس گروپ نے سابق صدر بشار الاسد کے خلاف اپنی کارروائی کا آغاز 27 نومبر کو شمالی صوبے ادلیب سے کرنے کے بعد برق رفتاری سے ملک کے اہم شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔
امریکہ نے شام میں تبدیلی کے بعد باغیوں کے “امید افزا” بیانات کا خیرمقدم کیا تھا لیکن ساتھ ہی واشنگٹن نے یہ بھی کہا تھا کہ باغیوں کو ان کے اقدامات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے وی او اے کے ایک سوال کے جواب میں کہا,” جب پابندیوں کا وقت آئے گا تو ہم اپنا فیصلہ کریں گے، جب تسلیم کرنے کا وقت آئے گا تو ہم اپنے تمام ٹول استمال کریں گے، ہم ایسا اس بنیاد پر کریں گے کہ ہم ایچ ٹی ایس اور دوسرے کرداروں کی طرف سے معروضی سطح پر کیا دیکھتے ہیں.”
ادھر یورپ کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے اتوار کو کہا تھا کہ یورپی یونین اس وقت تک گروپ کے خلاف اپنی پابندیاں نہیں اٹھائے گی جب تک کہ نئے حمکران اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی گارنٹی نہیں دیتے اور جب تک وہ دہشت گردی سے الگ ہونے کا اعلان نہیں کرتے۔
بین الاقو امی برادری نے افغان طالبان سے بھی اگست 2021 میں ان کے کابل پر قابض ہونے کے بعد اس قسم کی ضمانتیں مانگی تھیں۔
دنیا نے طالبان پر زور دیا تھا کہ اس سے پہلے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے، وہ دہشت گردی کو روکنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کریں، ایک جامع حکومت قائم کریں اور انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔
ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے افغان طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
صوفان گروپ نامی ایک تحقیقی ادارے کے ڈائریکٹر کولن کلارک نے وی او اے کو بتایا کہ امریکہ کی شام کے بارے میں پالیسی اس کے افغانستان کے تجربے کی روشنی میں ترتیب دی جا رہی ہے۔
کلارک کے مطابق شام کے ایچ ٹی ایس گروپ اور افغان طالبان میں بہت سے مماثلتیں ہیں جن میں حقیقت پسندانہ ہونا، میانہ رو ہونا، انتہا پسند جہادی نظریے سے الگ رہنا شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکیہ اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں نے ایچ ٹی ایس گروپ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کے مطابق ایچ ٹی ایس شام کے سنی باغی گروپوں کا مخلوط گروپ پے جو ماضی کے النصرہ یا نصرہ فرنٹ کے نام سے شام میں القاعدہ گروپ کی شاخ تھی۔
تحریر: روشن نور زئی اور سید عزیز رحمان