|
یوکرین کے خلاف جنگ میں شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی مداخلت “خطرناک پھیلاؤ” ہے۔یہ بات امریکہ کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین اور دس دیگر ممالک نے کہی ہے۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا نے روس کی جنگی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے ہزاروں فوجی مدد کے لیے بھیجے ہیں۔
امریکہ اور جنوبی کوریا کے مطابق شمالی کوریا کے 10 ہزار سے زائد فوجی روس کی مدد کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
شمالی کوریا کے فوجی کرسک کے سرحدی علاقے میں بھی موجود ہیں جہاں یوکرین نے پیر کو اطلاع دی کہ اس کے جنگجوؤں نے شمالی کوریا کے کم از کم 30 فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کر دیا
واشنگٹن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کے خلاف روسی جارحانہجنگ کے لیے شمالی کوریا کی براہ راست حمایت تنازعے میں ایک خطرناک پھیلاؤ ہے جس سے یورپی اور ہند-بحرالکاہل کے ممالک کی سلامتی کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔
بیان پر آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ” روس کی طرف سے شمالی کوریا کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سمیت غیر قانونی ہتھیاروں کے پروگراموں کے لیے کسی بھی سیاسی، فوجی یا اقتصادی مدد فراہم کیے جانے پر گہری تشویش ہے۔
خیال رہے کہ فروری 2022 میں یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد سے شمالی کوریا اور روس نے اپنے فوجی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن ماسکو سے جدید ٹیکنالوجی اور اپنے فوجیوں کے لیے جنگ کا تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیان کی حمایت کرنے والے ملکوں نے روس اور یوکرین کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جس میں “یوکرین کے خلاف میدان جنگ میں استعمال کے لیے شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی بھی شامل ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پیانگ یانگ کی طرف سے روس کو بیلسٹک میزائل، توپ خانے کے گولے اور دیگر فوجی سامان کی برآمد کے ساتھ ساتھ ماسکو کی جانب سے شمالی کوریا کے فوجیوں کو ہتھیاروں کی تربیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔”
ملکوں نے شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی جنگ کے لیے فوری طور پر ہر طرح کی مدد بند کر دے اور اپنے فوجیوں کو واپس بلائے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)