|
اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کی اہلیہ کے خلاف ان الزامات کی چھان بین کریں کہ انہوں نے اسرائیلی رہنما کے سیاسی مخالفین اور بد عنوانی کے مقدمے کے شاہدین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل کی وزارتِ انصاف نے یہ اعلان جمعرات کو دیر گئے ایک مختصر پیغام میں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ تحقیقات میں توجہ، سارہ نیتن یاہو کے بارے میں ‘ اودا ‘ Uvda نامی پروگرام کی ایک رپورٹ میں کیے گئے انکشافات پر مرکوز رہے گی۔
اس پروگرام نے واٹس ایپ کے کئی پیغامات کا انکشاف کیا جن میں مسز نیتن یاہو نے بظاہر ایک سابق مشیر کو نیتن یاہو کے سیاسی مخالفین کے خلاف احتجاج اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کے خلاف بد عنوانی کے مقدمے کے ایک کلیدی شاہد حداس کلین کو ہراساں کرنے کے لیے کہا۔
وزارتِ انصاف کے اعلان میں مسز نیتن یاہو کا نام نہیں لیا گیا اور وزارت نے مزید تبصرہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
لیکن جمعرات کو جاری ہونے والی ایک وڈیو میں نیتن یاہو نے اپنی اہلیہ کے کئی طرح کے فلاحی اقدامات کا ذکر کیا اور اودا کی رپورٹ کو جھوٹ کہہ کر ہدفِ تنقید بنایا۔
نیتن یاہو کو درپیش قانونی مشکلات میں یہ تازہ ترین ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی وزیرِ اعظم کو بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ اس بارے میں مقدمے کی سماعت کے لیے 10 دسمبر کو عدالت میں پیش بھی ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔
نیتن یاہو کو فراڈ، اعتماد مجروح کرنے اور ذرائع ابلاغ کے مالکان اور دولت مند ساتھیوں سے رعایتوں کے بدلے میں رشوت لینے کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو ان الزامات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ حد سے زیادہ پرجوش پراسیکیوٹرز، پولیس اور میڈیا کے “وچ ہنٹ” کا شکار ہوئے ہیں۔
ان مقدمات کے فوری فیصلے کا امکان بہت کم ہے اور ان پر کارروائی آئندہ کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ مقدمات بطور وزیرِ اعظم کام کرنے میں نیتن یاہو کے لیے رکاوٹ نہیں ہیں۔ کیوں کہ اسرائیل کے قانون کے مطابق مقدمات کی صورت میں وزیرِ اعظم اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے۔ سزا کی صورت میں بھی اس کے خلاف کی گئی اپیل پر فیصلہ آنے تک وزیرِ اعظم اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے۔
اسرائیلی قانون کے مطابق رشوت وصول کرنے کے جرم میں 10 سال تک قید اور جرمانہ یا دونوں یا ان میں سے ایک سزا ہو سکتی ہے۔ جعل سازی اور دھوکہ دہی پر تین سال تک کی سزا ہے۔
(اس خبر میں معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)