|
افغانستان کے طالبان حکام نے جمعرات کو ایسے دو مردوں کو سر عام سزائے موت دے دی جنہیں دو الگ واقعات میں قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
طالبان کی سپریم کورٹ نے کہا کہ موت کی یہ سزائیں جنوب مشرقی شہر غزنی کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں گولی مار کر دی گئیں۔
محکمہ انصاف اور دوسرے سرکاری شعبوں کے افسروں کی ایک بڑی تعداد اور رہائشیوں نے موت کی ان سزاؤں پر عمل در آمد ہوتے ہوئے دیکھا، لیکن کسی کو اسٹیڈیم میں سیل فون یا کیمرہ لانے کی اجازت نہیں تھی۔
عدالتی بیان میں کہا گیا کہ موت کے گھاٹ اتارے گئے دونوں مردوں پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور انہیں دو لوگوں کو چھرا گھونپ کر ہلاک کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہاگیا کہ عدالتی حکم پر اس کے بعد عمل درآمد کیا گیا جب طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس کی منظوری دے دی۔
اقوام متحدہ نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں اور انہیں روکنا چاہیے۔
طالبان نے اس تنقید کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ ان کا فوجداری نظام اور نظام حکومت زیادہ تر اسلامی اصولوں اور رہنما ضابطوں پر مبنی ہے۔
افغانستان میں 1996 سے 2001 تک طالبان کی سابقہ حکومت کے دوران سرعام کوڑے مارنا اور موت کے گھاٹ اتارنا ایک معمول تھا۔
طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اسلامی قوانین کی اپنی سخت تشریح مسلط کرنے کے بعد سے اب تک چار افراد کو سینکڑوں افراد کے سامنے سزائے موت دی ہے اور خواتین سمیت لگ بھگ 350 افراد کو کوڑوں کی سزائیں دی ہیں۔
سن 2022 کے اختتام پر جنوبی افغانستان میں دو خواتین سمیت 27 افراد کو چوری، زنا اور دیگر جرائم کے الزام میں سرعام کوڑوں کی سزا ئیں دی گئی تھیں۔ حکام اور مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں جنوبی ہلمند اور زابل کے صوبوں میں دی گئیں۔
ہلمند میں اس وقت صوبائی حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے اسپورٹس اسٹیڈیم میں 20 افراد کو کوڑے مارے گئے۔
اطلاعات کے مطابق ہر شخص کو 35 سے 39 تک کوڑے مارے گئے۔ اس موقع پر طالبان کے صوبائی عہدیدار، مذہبی رہنما اور مقامی عمائدین سمیت بڑی تعداد میں عام لوگ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مجرموں کو قید کی سزا بھی دی گئی ہیں۔
طالبان کے زیر انتظام سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ زابل کے دارالحکومت قلات میں پانچ مردوں اور دو عورتوں کو ناجائز تعلقات قائم کرنے، ڈکیتی اور دیگر جرائم کے ارتکاب پر سرعام کوڑے مارے گئے۔ تاہم ایجنسی نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
متاثرہ خواتین پر زیادہ تر بدکاری اور گھروں سے بھاگنے جیسے جرائم کے الزامات عائد تھے۔