اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے جمعے کے روز اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں اموات، تباہی اور نسل کشی جیسے کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکن کاروائی کرے۔ تاہم عدالتی پینل نےاسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دینے سے گریز کیا جو فلسطینیوں کے محصور علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنی ہے۔
اس مختصر حکم کے بعد امکان ہے کہ یہ مقدمہ آئندہ کئی برسوں تک عالمی عدالت میں زیر سماعت رہے گا تاہم جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ اس مقدمے میں فوری جنگ بندی کی درخواست قبول نہ کیے جانے سے اسرائیل کو کچھ فائدہ ہوا ہے۔
لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں جو نصف درجن احکامات جاری کیے ہیں، جنگ روکے بغیر ان پر عمل درآمد مشکل دکھائی دیتا ہے۔
عدالت کے صدر جان ای ڈونوگھو نے کہا ہے کہ عدالت خطے میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے بخوبی واقف ہے اور اسے انسانی جانوں کے مسلسل ضیاع اور انسانی تکالیف پر گہری تشویش ہے۔
عدالت کی جانب سے اسرائیل کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست قبول نہ کیے جانے سے اسرائیل کو دھچکا لگا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نےکہا ہے کہ یہ حقیقت کہ عدالت نسل کشی کے الزامات پر بحث کے لیے تیار ہے، شرم کا ایک ایسا نشان ہے جسے نسلوں تک مٹایا نہیں جا سکے گا۔
انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دوہرایا کہ جنگ جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے ملک اور اپنے عوام کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہے کرتا رہے گا۔
نیتن یاہو کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ نہیں رکے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی وزارت صحت تقربیاً 26000 ہلاکتوں کی نشاندہی کر رہی ہے جن میں ان کے بقول 70 فی بچے اور عورتیں ہیں، اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں حماس کے 9000 عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ درحقیقت ان لوگوں پر مقدمہ چلنا چاہیے جنہوں نے بچوں، عورتوں اور معمر افراد کو قتل کیا اور کئی ایک کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
7 ۔ اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 240 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جن میں سے اکثر کو غزہ میں کہیں رکھا جا رہا ہے۔
نومبر میں قطر کی ثالثی میں ہونے والی ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی میں تقریباً 100 یرغمالی رہا ہو گئے تھے۔ باقی ماندہ ابھی تک عسکریت پسندوں کے پاس ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق ان میں سے کئی ایک ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کے حکم میں حماس سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود تمام یرغمال رہا کر دے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں قانون کے ایک لیکچرر ہائم ابراہام کہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی چیزیں موجود ہیں جو نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
فلسطینیوں کی مزید ہلاکتوں اور نقصانات کو روکنے کے لیے عالمی عدالت کے ججوں کے پینل کی بھاری اکثریت نے چھ احکامات جاری کیے ہیں ۔ پینل کے ایک اسرائیلی جج نے بھی دو احکامات کے حق میں اپنا دوٹ دیا ہے جن کا تعلق انسانی ہمدردی کی امداد تک رسائی اور اشتعال انگیز تقریروں کی روک تھام سے ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک مہینے کے اندر احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ عدالت کو پیش کرے۔
عالمی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن دوسری جانب عدالت کے پاس اپنا حکم منوانے کے لیے کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ اس لیے واضح نہیں ہے کہ اسرائیل ان پر عمل کرے گا یا نہیں۔
نوٹرڈیم یونیورسٹی کے کروک انسٹی ٹیوٹ کی بین الاقوامی امن کی پروفیسر میری ایلن اوکونل کہتی ہیں کہ جب عدالت اس مقدمے پر واپس آئے گی تو وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ نے احکامات پر عمل نہیں کیا اور ان کی تعمیل نہیں کی۔ اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ نسل کشی کے مرتکب ہوئے ہیں اور آپ کو فائر بندی کر دینی چاہیے۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اقوام متحدہ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں نے انسانیت اور بین الاقوامی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔
جنوبی افریقہ کی حکومت نے کہا ہے کہ فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات ممکنہ طور پر نسل کسی میں شامل ہیں۔
براعظم افریقہ میں واقع ماپونگوبوے انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک ریفلکشن کی ڈائریکٹر سوسن بوئی سن کہتی ہیں کہ میں یہ سمجھتی ہوں اس فیصلے نے جنوبی افریقہ کو انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی ترجمان کے طور پر نمایاں کر دیا ہے۔
جنوبی افریقہ کے حکام اکثر سفید فام اقلیت کی حکمرانی کے خلاف اپنی سابقہ جدوجہد کا فلسطینی کاز سے موازنہ کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں بین الاقوامی انصاف کے شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر بلقیس جراح کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی اور فلسطینیوں کے خلاف مزید مظالم روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل ریڈ براڈے کہتے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کو وہ سب کچھ نہیں دیا جو وہ چاہتا تھا ۔۔۔۔لیکن یہ فیصلہ اسرائیلی پالیسی کے خلاف ایک مضبوط فرد جرم ہے۔
لندن کے تھنک ٹینک چتھم ہاؤس کے جنوبی افریقہ کے ایک سینئر محقق کرس وینڈوم کہتے ہیں کہ عالمی عدالت کے ججوں کو جنوبی افریقی اسکارف پہنے ہوئے دیکھنا جنوبی افریقہ کی قومی رگبی ٹیم کو ورلڈ کپ جیتنے ہونے دیکھنے جیسا ہے۔ یہ فخر کا مقام ہے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)