یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے پیر کے روز کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنی جنگ کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ آنے والی نسلوں کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔
بوریل نے یہ بات اس علیحدہ بات چیت سے قبل کی جو یورپی یونین کے وزراء نے اسرائیلی وزیر خارجہ کیٹز اور فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ سفارت کار ریاض المالکی سے کی۔
بوریل نے رپورٹروں کو بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ حماس کیا ہے۔ حماس نے کیا کچھ کیا ہے اور یقیناً ہم اسے مسترد کرتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن امن اور استحکام صرف فوجی ذرائع سے ہی قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اور خاص طور پر اس انداز میں فوجی ذرائع اور وسائل استعمال کر کے تو قطعی طور پر نہیں۔
بوریل ان مغربی عہدیداروں میں شامل ہیں جو غزہ میں شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ غزہ میں حماس کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک کم از کم 25 ہزار 295 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ جن میں بہت سی عورتیں اور بچے شامل ہیں۔
وزارت یہ نہیں بتاتی کہ مارے جانے والوں میں کتنے شہری اور کتنے حماس کے جنگجو ہیں۔
بوریل نے کہا کہ انسانی صورت حال اس سے زیادہ بدتر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بتانے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ ایسے میں صورت حال کیا ہے جب لاکھوں لوگ بغیر کسی پناہ کے، بغیر خوراک کے، بغیر دواؤں کے، کسی بھی چیز کے بغیر ہیں۔ جب کہ اوپر سے بم برس رہے ہیں۔ اور روزانہ بڑی تعداد میں شہری مارے جا رہے ہیں۔
جنگ جاری ہے
پیر کے روز بھی غزہ میں جنگ جاری رہی اور شمالی، وسطی اور جنوبی خطوں میں اسرائیل کے جنگی طیارے حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بناتے رہے۔ غزہ کے دوسرے بڑے شہر خان یونس میں فضائی حملوں اور شدید جنگ کی اطلاعات دی گئی ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ اس کی ایمبولینس گاڑیاں خان یونس میں زخمیوں تک پہنچنے میں ناکام رہیں کیونکہ اسرائیلی فوجوں نے گروپ کے ایمبولینس سینٹر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل ،حماس پر شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ جان بوجھ کر رہائشی علاقوں اور ان کے نیچے سرنگوں کے ایک نیٹ ورک سے کارروائیاں کرتا ہے۔
نیتن یاہو نے اتوار کے روز جنگ ختم کرنے کی حماس کی ایک تجویز مسترد کر دی۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یرغمالوں کی رہائی کے بدلے حماس جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ غزہ سے ہماری افواج کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تمام قاتلوں اور جنسی مجرموں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اور چاہتی ہے کہ اسے صحیح سلامت چھوڑ دیا جائے۔ اور اسرائیلی لیڈر نے کہا کہ”میں حماس کے عفریتوں کی ہتھیار ڈالنے کی شرائط کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔”
حالیہ دنوں میں نیتن یا ہو نے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف بھی ایک مضبوط موقف اختیار کر رکھا ہے۔
حماس کا موقف
حماس نے اتوار کے روز اسرائیل پر اپنے حملے کا دفاع کیا۔ لیکن غلطیوں کا اعتراف کیا اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
حملے کے بارے میں اپنی پہلی پبلک رپورٹ میں عسکریت پسند گروپ نے کہا کہ یہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی حاصل کرنے کے لیے ایک ضروری قدم تھا۔
فلسطینی ریاست۔ امریکہ اور برطانیہ کا موقف
جمعے کے روز صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جس میں ایک غیر فوجی حکومت بھی شامل ہو سکتی ہے۔ ممکنہ حل کے حوالے سے نیتن یا ہو سے بات کی ہے
نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے بارے میں اپنا موقف بدلنے کے لیے انہیں بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا اصرار وہی ہے جو برسوں سے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو روکتا رہا ہے کہ اس سے اسرائیل کے لیے ایک وجودی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
برطانوی وزیر خارجہ گرانٹ شیپس نے اسکائی نیوز کو اتوار کے روز بتایا کہ اسرائیل حماس جنگ کے خاتمے پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے نیتن یاہو کی مخالفت کے بارے میں سن کر مایوسی ہوئی۔
انہوں نے کہا دو ریاستی حل کے علاوہ ان کے خیال میں اور کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
اس بارے میں اپنی حکومت کے موقف کے بارے میں صدر بائیڈن نے کہا کہ دو ریاستی حل کی کئی اقسام ہیں۔ اور جب پوچھا گیا کہ کیا اس وقت تک دو ریاستی حل ناممکن ہے جب تک نیتن یاہو برسر اقتدار ہیں تو بائیڈن کا جواب تھا، ایسا نہیں ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے پی، اے ایف پی اور رائٹر سے لیا گیا ہے۔