واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی سفارتکار ہالا رہاریت نے غزہ جنگ پالیسی پر بائیڈن انتظامیہ چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ میں امریکا سے کسی کے مزید نفرت کرنے کی وجہ نہیں بننا چاہتی۔
ہالا رہاریت کا کہنا تھا کہ محکمہ خارجہ کے نکات اکثر فلسطینیوں کو یکسر نظر انداز کرتے تھے، محکمہ خارجہ کے نکات میں فلسطینیوں کی حالت زار کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ محکمہ خارجہ کے نکات پر بات کرتی تو لوگ ٹی وی پر جوتا مارنے، امریکی پرچم جلانے اور امریکی فوج پر راکٹ مارنے کا سوچتے، میں امریکا سے مزید نفرت کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے یتیم فلسطینی بچے کل کو ہتھیار اٹھاکر بدلا لینے نہ کھڑے ہوں، ہم پوری نسل کو انتقام پر اکسا رہے ہیں، یہ اسرائیلیوں کو بھی محفوظ نہیں بناتا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں عرب میڈیا میں پھیلی شہید فلسطینی بچوں کی ویڈیو دیکھتی رہی، زیادہ المناک یہ تھا کہ اموات کے باوجود ہم مزید اسلحہ اسرائیل بھیج رہے تھے، یہ پاگل پن ہے، ہمیں اسلحہ کی نہیں سفارتکاری کی ضرورت ہے۔
ہالا رہاریت نے کہا کہ محکمہ خارجہ میں اہلکار غزہ پالیسی کی مخالفت میں بولنے سے خوفزدہ تھے، شاید وزیر خارجہ کے سوا محکمے میں کوئی بھی غزہ پالیسی تبدیل نہیں کرسکتا تھا، خوف کے سبب محکمہ خارجہ میں لوگ یہ نہیں جانتے کہ دوسرا غزہ پر کیا سوچتا ہے، محکمہ خارجہ میں لوگ غزہ کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں، محکمہ میں لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں غزہ میں کچھ نہیں ہورہا۔
ہالا رہاریت نے کہا کہ عرب امریکی ہونے کی وجہ سے محکمہ خارجہ میں لوگوں کا مجھ سے برتاؤ مختلف تھا، لوگوں کے برتاؤ نے مجھے شدید ناراض کردیا تھا، غزہ تنازع پر یہ پہلی بار حیران کن اور منجمد کرنیوالی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
یادرہے کہ ہالا رہاریت نے امریکی محکمہ خارجہ کی ملازمت سے پچھلے ہفتے استعفا دے دیا تھا، مستعفی ہونے سے پہلے وہ دبئی میں امریکی سفارتکار تھیں۔
ہالا رہاریت 18 برس سے امریکی محکمہ خارجہ سے وابستہ تھیں اور عربی زبان کی ترجمان تھیں، ہالا رہاریت نے دوران ملازمت شہرت حاصل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا تھا۔مستعفی امریکی سفارتکار نے اپنے بیان میں کہا کہ اکتوبر سے میں نے غزہ صورتحال پر انٹرویو دینا بند کردیے تھے، کیوں کہ محکمہ خارجہ غزہ پر جن نکات پر بات کا کہتا تھا وہ اشتعال انگیز تھے۔