|
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے جمعے کو کہا ہے کہ اس نے غزہ جنگ میں جن ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے ان میں تقریباً 70 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔
گروپ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کی منظم خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار اسرائیل حماس تنازع کے پہلے سات ماہ پر محیط ہیں۔ غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والے اس تنازع کو 13 ماہ ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے ان سات ماہ میں آٹھ ہزار 119 متاثرین کی تصدیق کی۔ یہ تعداد 13 ماہ کی فراہم کردہ مجموعی تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق 13 ماہ کے اس تنازع میں 43 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
البتہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے متاثرین کی عمر اور جنس کی تقسیم سے فلسطینیوں کے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
انسانی حقوق دفتر نے 32 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے ساتھ ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ نتائج بین الاقوامی انسانی قانون بشمول امتیاز اور تناسب کے بنیادی اصولوں کی منظم خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ قابلِ اعتماد اور غیر جانبدار جوڈیشل اداروں کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کا حساب کیا جائے اور اسی دوران تمام متعلقہ معلومات اور شواہد کو اکٹھا اور محفوظ کیا جائے۔
اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو اس وقت ہوا جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے وہاں 1200 لوگوں کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے اس حملے کے جواب میں حماس کے خاتمے کے عزم کے ساتھ غزہ میں جنگ کا آغاز کیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ یہ خیال رکھتی ہے کہ غزہ میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔
اس کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر جنگجو کے لیے ایک شہری مارا گیا ہے۔ فوج اس تناسب کا الزام حماس پر لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم شہریوں کی جگہوں کو استعمال کرتی ہے۔
حماس شہریوں اور اسپتالوں سمیت سول انفراسٹرکچر کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے انکار کرتی ہے۔
متاثرین میں ایک دن کا بچہ بھی شامل
رپورٹ میں کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ کے مانیٹرز نے سب سے کم عمر جس موت کی تصدیق کی وہ ایک دن کا بچہ تھا جب کہ سب سے زیادہ عمر کی موت ایک 97 سالہ خاتون کی ہوئی تھی۔
مجموعی طور پر متاثرین میں 44 فی صد بچے شامل تھے جن میں سب سے زیادہ پانچ سے نو سال کی عمر کے بچے تھے۔ اس کے بعد متاثرین میں 10 سے 14 سال کے بچے تھے جب کہ اس کے بعد چار سال تک کی عمر کے بچے شامل تھے۔
یہ اعداد و شمار غزہ کی پٹی کی آبادی کی عکاسی کرتے ہیں جس کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری نقصان سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے میں بظاہر ناکامی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق اس سے پتا چلتا ہے کہ 88 فی صد واقعات میں ایک ہی حملے میں پانچ یا اس سے زیادہ لوگ مارے گئے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے ہتھیاروں کے استعمال کا وسیع علاقے پر اثر ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ ہلاکتیں فلسطینی مسلح گروپس کی جانب سے داغے گئے غلط پروجیکٹائل کا نتیجہ ہوں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔