|
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ جمعے کے روز دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی کوئی تجویز پیش کی جاتی ہے اور اسرائیل اس کا احترام کرتا ہے تو حماس جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔
باسم نعیم نے مزید کہا، ہم امریکی انتظامیہ اور ٹرمپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر زور دیں کہ وہ حملے بند کرے۔
اسرائیل نے حماس کے اس بیان پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے، ہفتے کے روز قطرنے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کی ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ بند کروانے اور اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کی بالواسطہ بات چیت میں اپنی معاونت ختم کر رہا ہے۔
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک بیان میں کہا،” فریقین کی جانب سے سنجیدگی کے ساتھ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر ہونے پر قطر اپنی کوششیں دوبارہ شروع کردے گا۔”
حماس کی جانب سے یہ بیان جمعے کو ایسے وقت آیا جب غزہ پر اسرائیل کے حملے جاری ہیں۔ وسطی شہر دیر البلاح کے رہائیشی رات بھر ملبے سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو تلاش کرتے رہے۔
امریکہ کا جنگ میں وقفے پر زور
غزہ کی جنگ میں صحیح معنوں میں اور ایک طویل وقفہ آنا چاہئیے تاکہ وہاں لوگوں تک امداد پہنچائی جا سکے، یہ بات امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہی ہے۔
بلنکن نے بلجئیم کے دارالحکومت برسلز کے دورے کے موقعے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ میں لڑائی میں ایک مؤثر وقفہ ہوتاکہ امدای سامان ان لوگوں تک پہچ سکے جنہیں اس کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو انسانی زندگی کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں اور اس کے وہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں جو اس نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا، “اب یہ وقت جنگ ختم کرنے کا ہونا چاہئیے۔”
اس سے پہلے امریکہ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے واشنگٹن کی درخواست کے مطابق غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کے امدادی سامان کی ترسیل محدود طور پر بڑھائی ہے اس لیے بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند نہیں کرے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے رپورٹروں کو معمول کی بریفنگ کے دوران کہا تھا، “اس وقت ہم نے ایسا کوئی اندازہ نہیں لگایا کہ اسرائیل نے کسی امریکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔”
اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل نے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں شمال میں امدادی سامان کی ترسیل کی بحالی شامل ہے لیکن اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے ان اقدامات پر پوری طرح عمل ہو اور جو بہتری ہو وہ پائیدار ہو۔
“گرین فیلڈ نے کہا، ہم یہ بات مسلسل دہراتے ہیں کہ غزہ میں زبردستی کسی کو بیدخل نہ کیا جائے نہ ہی بھوک عام کرنے کی کوئی پالیسی ہو اور امریکی اور بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنے کے شدید نتائج ہو سکتے ہیں۔”
اقوامِ متحدہ کا ردِ عمل
اسی میٹنگ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سینئیرعہدیدار نے کہا کہ غزہ میں امداد داخل ہونا اور اس کی تقسیم، ایک سال کی کم ترین سطح پر ہے۔
اسرائیل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ غزہ کے لیے امداد محدود کر رہا ہے بلکہ وہ اقوامِ متحدہ کے اداروں پر امداد کی تقسیم کی رفتار سست کرنے اور حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد شروع ہوئی جن میں 1200 لوگ مارے گئے اور حماس نے 250 افراد کو یرغمال بنا لیا جن میں سو کے قریب اب بھی غزہ کے اندر ہیں۔
جواب میں غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں، فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق 43,000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے مرنے والوں میں ہزاروں حماس کے جنگجو ہیں۔
ایران کی لبنان میں جنگ بندی کی حمایت
جمعے کے روز ہی اسرائیل نے لبنان پر بھی اپنے حملے جاری رکھے۔ اے ایف پی کے مطابق حزب اللہ کی عمارت پر دو حملے کیے گئے۔ جس سے عمارت میں آگ لگ گئی اور عمارت مسمار ہوگئ۔
اسی دوران ایران نے کہا ہے کہ وہ بات چیت کے دوران لبنان کے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر رضامندی کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرتا ہے۔ ایران کے ایک سینئیر عہدیدار کے جمعے کے دن کے اس بیان میں اشارةً کہا گیا کہ تہران اس جنگ کا ختمہ چاہتا ہے جس میں اس کے اتحادی حزب اللہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اسی دوران حزب اللہ کے کنٹرول والے بیروت کے جنوبی نواح میں اسرائیل کے حملے چوتھے روز بھی جاری رہے جن میں کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔
لبنان کے دو سینئیر سیاسی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ لبنان میں امریکی سفیر نے جنگ بندی کا ایک مجوزہ منصوبہ لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر نبی بیری کو دیا ہے۔ نبی بیری حزب اللہ کی طرف سے مزاکرات کے نمائندے ہیں اور جمعے کے روز انہوں نے ایرانی عہدیدار علی لاری جانی سے ملاقات کی ہے۔
ایک نیوز کانفرنس میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ جنگ بندی کے امریکی منصوبے کو ختم کرنے آئے ہیں تو علی لاری جانی نے کہا،” ہم کسی چیز کو درہم برہم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے مطابق ہونی چاہئیے جس کے ذریعے 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بند ہوئی تھی۔ لاری جانی نے بھی کہا کہ ایران قرارداد 1701 کی حمایت کرتا ہے۔
اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ اگر حزب اللہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اسے کارروائی کرنے کی آزادی ہونی چاہئیے جبکہ حزب اللہ نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف اپنا زمینی حملہ ستمبر کے آخر میں شروع کیا تھا جب غزہ میں جنگ کے ساتھ ساتھ ایک سال تک سرحد کے آر پار کارروائیاں جاری رہی تھیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان ہزاروں اسرائیلیوں کو ان کے گھروں میں واپس لانا چاہتا ہے جنہیں شمالی اسرائیل مین حزب اللہ کے حملوں کے باعث گھر چھور کر جانا پڑا تھا۔
اسرائیل کے حزب اللہ کے خلاف حملوں کی وجہ سے لبنان کے دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور انسانی زندگی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
لبنانی حکام کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر سے جب حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان گولہ باری شروع ہوئی، اب تک 3,380 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں
اسرائیل کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں، شمالی اسرائیل، اسرائیلی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں اور جنوبی لبنان پر حزب اللہ کے حملوں میں اس کے 100 سویلینز اور فوجی مارے جا چکے ہیں۔
( اس خبر میں کچھ معلومات اے ایف پی اور رائٹرز سے بھی لی گئی ہیں)