|
مکہ میں مسلمان عازمین حج جمعے کے روز شدید گرمی میں ریگستان کے ایک وسیع و عریض خیمہ کیمپ میں اکٹھے ہوئے جس سے سالانہ حج کا باضابطہ آغاز ہوا۔ ان لاکھوں عقیدت مندوں میں غزہ اور مغربی کنارے سے آنے والے عازمین حج بھی شامل ہیں۔
فلسطینی حکام نے بتایا کہ مقبوضہ مغربی کنارے سے 4,200 عازمین حج کے لیے مکہ پہنچے ہیں۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کے ایک ہزار مزید افراد بھی سعودی عرب کے شاہ سلمان کی دعوت پر حج کرنے پہنچے
مدعو کیے گئے یہ ایک ہزار فلسطینی رفح کی بندش سے پہلے ہی غزہ سے باہر تھے جن میں سے زیادہ تر مصر میں تھے۔
غزہ کے محصور ساحلی پٹی سے فلسطینی اس سال اس لیے حج کے لئے مکہ نہیں جا سکتے تھے کیوں کہ مئی میں مصر کی سرحد پر اس پٹی کے جنوبی شہر رفح تک اسرائیل کی جانب سے اپنی زمینی کارروائی کی توسیع کے باعث رفح کراسنگ بند ہو گئی تھی ۔
جنوبی شہر خان یونس سے تعلق رکھنے والی 75 سالہ فلسطینی خاتون آمنہ ابومطلق، جنہوں نے اس سال حج کرنے کا پروگرام بنایا تھا بتایا۔
’’ہم کراسنگ بند ہونے اور جنگوں اور تباہی کی وجہ سے حج ادا کرنے سے محروم ہیں، ۔ انہوں نے (اسرائیل) ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا۔‘‘
اس سال شام کے عازمین بھی دس سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار دمشق سے براہ راست پروازوں کے ذریعے حج کے لیے مکہ پہنچے ۔
یہ اقدام سعودی عرب اور تنازعات سے متاثرہ شام کے درمیان کشیدہ تعلقات میں جاری نرمی کا ایک نتیجہ تھا ۔
اس سے قبل باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے شامی باشندے سرحد پار کر کے پڑوسی ملک ترکی جاتے تھے اور وہاں سےحج کے لیے اپنا تھکا دینے والا سفر کرتے تھے ۔
اس سال حج کے لیے دمشق سے روانہ ہونےوالے حجاج کے ایک گروپ کے شامی رابطہ کار عبد العزیز العشر کاکہنا تھا کہ ، “یہ ایک عام بات ہے: عازمین اپنے آبائی ممالک سے براہ راست حج پر جاتے ہیں۔”
دنیا بھر سے 15 لاکھ سے زیادہ عازمین ،حج کے لیے پہلے ہی مکہ اور اس کےارد گرد جمع ہو چکے ہیں، اور سعودی عرب کے اندر سے مزید عازمین کے شامل ہونے کے بعد اس تعداد میں ابھی تک اضافہ ہورہا ہے ۔ سعودی حکام نے توقع ظاہر کی تھی کہ اس سال عازمین حج کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے ۔
مقدس فریضے کی ادائیگی اور سیکیوریٹی خدشات
حج ایک جذباتی روحانی تجربہ ہے جو دنیا کے 2 ارب سے زیادہ مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ یہ تنازعات کےشکار کئی عرب اور مسلم ممالک میں امن کی دعا کرنے کا بھی موقع ہے،بشمول یمن اور سوڈان،جہاں حریف جرنیلوں کے درمیان ایک سال سے زیادہ کی جنگ نے دنیا کے سب سے بڑےنقل مکانی کے بحران کو جنم دیا ہے ۔
سعودی حکام نے مکہ اور اس کے اطراف میں حفاظتی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، شہر کی طرف جانے والی سڑکوں پر چوکیاں قائم کر دی ہیں تاکہ ان لوگوں کو جن کے پاس حج کےاجازت نامے نہیں ہیں انہیں مقدس مقامات تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
حج سیکیورٹی کمیٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد البسامی نے کہا کہ سیکیورٹی حکام نے بہت سے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جنہوں نے عازمین کو مکہ لے جانے کی کوشش کی جن کے پاس حج پرمٹ نہیں تھے۔ وزارت داخلہ کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر کو ملک سے نکال دیا گیا، جبکہ ٹریول ایجنٹوں کو چھ ماہ تک جیل کا سامنا کرنا پڑا۔
جمعہ کے روز حجاج کرام نے منیٰ کا رخ کیا۔ اس کے بعد وہ ہفتے کے دن میدان عرفات میں قیام کے لیے روانہ ہو ں گے ۔کوہ عرفات ، ایک صحرائی پہاڑی ہے جہاں پیغمبر اسلام نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا ، جسے خطبہ الوداع کہا جاتا ہے۔ صحت مند حجاج پیدل سفر کرتے ہیں، دوسرے بس یا ٹرین کا استعمال کرتے ہیں۔
زیادہ تر مناسک حج کھلے مقام پر ادا کیے جاتے ہیں جہاں بہت کم سایہ دسیتاب ہوتا ہے ۔ جب یہ گرمیوں کے مہینوں میں آتا ہے تو درجہ حرارت 40 سیلسیس سے زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ مقدس مقامات پر درجہ حرارت 48 سیلسیس تک پہنچ سکتا ہے۔ بہت سے زائرین نےتپتی دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھتریاں ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔
ہفتے کو عرفات میں قیام کے بعدحجاج چند کلومیٹر کا سفر کرکے مزدلفہ کے نام سے مشہور مقام پر کنکریاں اکٹھا کریں گے جسے وہ منیٰ میں واپس جاکر شیطان کی نمائندگی کرنے والے ستونوں کو علامتی طور پر سنگسار کرنے میں استعمال کریں گے۔
حجاج پھر تین دن کے لیے منیٰ واپس آتے ہیں جو عید الاضحیٰ کے تہوار کے دن ہوتے ہیں جب دنیا بھر کے مسلمان لائیو اسٹاک کی قربانی کرتے ہیں اور غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج مکہ واپس آتے ہیں اور خانہ کعبہ کا الوداعی طوف کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کے وبائی مرض کی وجہ سے تین سال کی سخت پابندیوں کے بعد سالانہ حج حالیہ برسوں میں اب اپنے معمول کے پیمانے پر واپس آگیا ہے ۔
گزشتہ سال 18 لاکھ سے زیادہ عازمین نے حج کیا۔ جو 2019 کی تعداد کے قریب پہنچ گئی تھی جب 24 لاکھ سے زیادہ عازمین نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔