سی آئی اے اور موساد کے سربراہان اپنے اپنے ملک میں موجود اپنی ٹیمز کو بات چیت کے تازہ راؤنڈ کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے دوحہ سے واپس روانہ ہو گئے۔
غزہ کی جنگ میں فائر بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے قطر میں ہونے والی تازہ بات چیت کے بعد امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان قطر سے واپس روانہ ہو گئے ہیں۔امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ بِل برنز اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بیرنیا غزہ میں فائر بندی اور حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے پر بات چیت کے بعد ہفتہ کی شب دیر گئے قطر سے واپس روانہ ہوئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یہ بات اپنے ذرائع کے حوالے سے بتائی ہے۔
اس معاملے کی حساسیت کے سبب اس ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ سی آئی اے اور موساد کے سربراہان ”اپنے اپنے ملک میں موجود اپنی ٹیمز کو بات چیت کے تازہ راؤنڈ کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے دوحہ سے واپس روانہ ہو گئے۔‘‘ ان مذاکرات کے بارے میں آگاہی رکھنے والے اس ذریعے کا مزید کہنا تھا، ”بات چیت کا محور یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے تناسب کا معاملہ تھا۔‘‘
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں دوسری بار فائر بندی اور اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں اور حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے پر پس منظر میں ہونے والی بات چیت میں امریکی، قطری اور مصری مصالحت کار معاونت میں مصروف رہے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے جمعہ کے دن بتایا گیا تھا کہ اس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ایک ہی ہفتے میں دوسری مرتبہ دوحہ پہنچے ہیں، جہاں فائر بندی کے حوالے سے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل میں حملے کے نتیجے میں 1160 کے قریب افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ حماس کے حملہ آور 250 کے قریب اسرائیلیوں اور غیر ملکیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے تھے۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ان میں سے 130 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، ان میں وہ 33 افراد بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ شاید مارے جا چکے ہیں۔
سات اکتوبر کے حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ تب سے جاری ان کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 32,226 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان ہلاک شدگان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔