|
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں سے جنگی قوانین کے بنیادی اصولوں کی متعدد بار خلاف ورزی ہوئی ہو۔
بدھ کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر اور دسمبر کے دوران، غزہ میں جنگ کے ان ابتدائی ہفتوں میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی جانب سے کیے گئے چھ فضائی حملوں کا جائزہ لیا گیا۔ انسانی حقوق کے دفتر نے ان حملوں میں 200 سے زیادہ افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔ ان حملوں کے اہداف رہائشی عمارتیں، ایک اسکول، ایک مارکیٹ اور ایک پناہ گزین کیمپ تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے بمباری کی اس مہم کے دوران عام فلسطینی شہریوں اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان موثر طور پر فرق کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ترک کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت عام شہریوں کی زندگیوں اور شہری انفراسٹرکچر کو تحفظ حاصل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون مسلح جھڑپوں میں شامل فریقوں کی ذمہ داریوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے جس کے مطابق شہریوں کے تحفظ کو ترجیح حاصل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ چھ حملوں میں 113 کلوگرام سے 907 کلوگرام تک وزنی بھاری بموں کے استعمال کا شبہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی مسلح گروپوں کی طرف سے اسرائیل کی جانب میزائل حملے بھی بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
غزہ کی پٹی میں حماس کے کنٹرول کے صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد شروع ہونے والی اسرائیل کی زمینی اور فضائی مہم کے آغاز سے اب تک 37266 سے زیادہ افراد ہلاک اور 85102 زخمی ہو چکے ہیں۔
جب کہ جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے اچانک اور بڑے حملے میں اسرائیل کے مطابق 1200 افراد مارے گئے تھے اور عسکریت پسند غزہ واپس جاتے ہوئے 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
نومبر میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران حماس نے فلسطینی قیدیوں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے بدلے میں تقریباً 100 یرغمال آزاد کر دیے تھے۔ حال ہی میں اسرائیلی فورسز نے ایک چھاپہ مار کارروائی میں چار یرغمالوں کو بازیاب کرایا ہے جب کہ 116 اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق ان میں سے 40 کے لگ بھگ یرغمال ہلاک ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات رائٹرز اور اے پی سے لی گئیں ہیں)