اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جلد بند نہ ہوئی تو غزہ کی پٹی میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارے کے انسانی ہمدردی کے متعدد عہدیداروں نے کہا ہے کہ “جنگ کو روکنے کے لیے اگر کچھ نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط یقینی ہو گا۔”
پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30 ہزار لوگ ہلاک اور 70 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
جنگ گزشتہ سال اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصوں پر حملہ کیا جس میں تل ابیب کے مطابق تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر میں کوآرڈینیشن ڈویژن کے ڈائریکٹر رمیش راجا سنگھم نے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو مزید بہت سے لوگ متاثر ہوں گے۔
پچیس فی صد آبادی قحط سے ایک قدم دور
رمیش راجا سنگھم نے ان خیالات کا اظہار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے کیا جو الجزائر، گیانا، سلووینیا اور سوئٹزرلینڈ کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ عالمی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جنگ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
راجا سنگھم نے کہا کہ غزہ میں آبادی کا 25 فی صد یعنی تقریباً پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عملی طور پر پوری آبادی زندہ رہنے کے لیے ناکافی انسانی خوراک کی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “بدقسمتی سے، جتنی بھیانک تصویر آج ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں مزید بگاڑ کا امکان موجود ہے۔”
زرعی شعبے کو تباہی کا سامنا
اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ک اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل موریزیو مارٹینا نے بتایا کہ جنگ سے خوراک کی فراہمی کا پورا سلسلہ متاثر ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کاشت کاروں کو اسرائیل نے اپنی زمین خالی کرنے پر مجبور کیا۔ گولہ باری کی وجہ سے کاشت کار ان علاقوں سے نکل گئے جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔ کاشت کار گولہ باری سے فرار ہو گئے جس سے فصلیں تباہ ہوئیں۔ مویشی اور مرغیاں بھوک سے مر رہے ہیں یا بم دھماکوں میں مارے جا رہے ہیں۔ ماہی گیری ممنوع ہے اور زمینی پانی آلودہ ہے۔
مارٹینا نے کہا کہ ممکنہ صورتِ حال میں، زرعی پیداوار شمال میں مئی 2024 تک ختم جائے گی۔ “ہم پہلے ہی اس تباہی کو دیکھ رہے ہیں۔”
قطر میں عارضی جنگ بندی پر فریقین کا غور
اسرائیل اور حماس کے وفود قطر کی ثالثی میں ہونے والی ایک کوشش کے تحت عارضی جنگ بندی پر غور کر رہے ہیں۔
حماس اس تجویز پر غور کر رہی ہے جس پر اسرائیل نے گزشتہ ہفتے پیرس میں ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے دوران جنگ بندی کے لیے اتفاق کیا تھا۔
مجوزہ پلان کے مطابق رمضان کے دوران 40 دنوں تک لڑائی معطل رہے گی۔ یہ پانچ ماہ سے جاری لڑائی میں پہلی توسیع شدہ جنگ بندی ہو گی۔
فریقین کے وفود اس وقت تفصیلات پر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ “ہمارے پاس کسی بھی ایسے معاملے پر کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم کسی قسم کے معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔”
حالیہ ہفتوں میں عالمی برادری نے غزہ کے جنوبی علاقے رفح پر اسرائیل کی جانب سے حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ سمیت مغربی ممالک نے زور دیا ہے کہ کسی بھی آپریشن سے پہلے فلسطینی پناہ گزین لوگوں کے لیے محفوظ انخلا کا منصوبہ بنایا جائے۔
ادھر اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامیں نیتن یاہو ںے کہا ہے کہ جنگ بندی رفح میں حماس کے خلاف آپریشن کو محض مؤخر کرے گی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف مکمل فتح کے لیے رفح میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ضروری ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے پر ابھی کام باقی ہے
حماس کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے “رائٹرز” کو بتایا کہ “ابھی بھی بڑے خلا کو پر کرنا باقی ہے۔ جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کے بنیادی اور اہم مسائل کو واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے کسی معاہدے تک پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے۔”
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پیر کو اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگلے ہفتے کے اوائل تک جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق ہو سکتا ہے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے بائیڈن کی امید پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن حکومتی ترجمان ٹال ہینرچ نے کہا کہ کسی بھی معاہدے کے لیے حماس کو بہت کچھ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ “ہم راضی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حماس راضی ہے۔”
اسرائیل سے اغوا کیے گئے یرغمالوں کی رہائی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی رپورٹس کے مطابق عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں شامل ہو ں گے۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہیں)