غزہ میں حماس کی قید سے رہائی پانے و الے اسرائیلی منگل کے روز سرحد پر واقع اپنے گاؤں نیراوز میں دوبارہ داخل ہوئے جہاں سے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد انہیں فرار ہونا پڑا تھا اور ان میں سے کئی ایک یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ یرغمال بنائے جانے والوں میں ایک 8 ماہ کا بچہ بھی تھا جس کی پہلی سالگرہ کا کیک گاؤں والوں نے منگل کو کاٹا جب کہ بچہ ابھی تک حماس کی قید میں ہے۔
اس سب سے کم عمر اسرائیلی یرغمال کا نام کفیر بیباس ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ کفیر، اس کا چار سالہ بھائی ایریل اور ان کی والدہ شیری غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے میں مارے گئے تھے، جب کہ ان کے والد یارڈن زندہ بچ گئے۔
چونکہ اسرائیل کی جانب سے اس واقعہ کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے، اس لیے ان کے رشتے دار ، دوست اور گاؤں والے انہیں زندہ ہی خیال کرتے ہیں اور ان کی محفوظ واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
کفیر کی پہلی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے نیراوز گاؤں کے ویران پڑے ہوئے کنڈرگارٹن اسکول کو ادرک کے رنگ کے غباروں سے سجایا، جو ان کے بقول کفیر کے بالوں کا رنگ تھا اور میز پر سالگرہ کے کیک کے ساتھ کفیر کی تصویریں رکھیں۔
شیری کے کزن نے بتایا کہ ہم ایک ایسے بچے کی سالگرہ منا رہے ہیں جو یہاں موجود نہیں ہے۔ ہم نے اس کے لیے کیک بنایا ہے۔ ہم نے یہ جگہ غباروں اور اس کی تصویروں اور دوسری چیزیں سے سجائی ہے۔
کفیر جمعرات 18 جنوری کو ایک سال کا ہو جائے گا۔ اس وقت تک وہ اپنی عمر کا تیسرا حصہ یرغمال کے طور پر حماس کی قید میں گزار چکا ہے۔
نیر اوز کے ایک چوتھائی رہائشیوں کو حماس کے حملہ آوروں نے یا تو ہلاک کر دیا تھا یا یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ باقی ماندہ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ گئے تھے۔
گاؤں لوٹنے والے اب بھی صدمے اور خوف کی کیفیت میں ہیں۔
اسرائیل نے نومبر میں ہونے والی جنگ بندی کے دوران تقریباً نصف یرغمالوں کو رہا کروا لیا تھا۔ ان میں نیراوز گاؤں کی شیرون الونی کونیو اور اس کی تین سالہ دو جڑوان بیٹوں ایما اور جولی بھی شامل تھیں۔ جب کہ انکے کا شوہر ڈیوڈ ابھی تک حماس کے پاس یرغمال ہیں۔
کونیو کا کہنا ہے کہ جب میری اپنے شوہر سے آخری ملاقات ہوئی تو وہ بہت کمزور اور ناتواں دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی ایک ٹانگ زخمی تھی۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میرے لیے لڑو۔ ہار مت ماننا۔ میں بول نہیں سکتا، میرے لیے آواز اٹھاؤ۔ میں بہت ڈرا ہوا ہوں۔
اسرائیلی حکام معلومات کے مختلف ذرائع کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ کم ازکم 25 یرغمال قید کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
کونیو کہتی ہیں کہ میں رات کو سو نہیں سکتی۔ مجھے ڈراونے خواب آتے ہیں۔ میری بچیاں مسلسل اپنے والد کے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں۔ میں ہر صبح اس عزم کے ساتھ اٹھتی ہوں کہ اپنے شوہر کے لیے آواز اٹھاؤں گی۔
حماس نے پیر کے روز ایک ویڈیو جاری کی جس میں دو دیگر یرغمالوں کی لاشیں دکھائی گئیں تھیں اور ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔اسرائیل نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کیے بغیر کہا کہ حماس اس ویڈیو کو نفسیاتی اذیت کے حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
قطری اور مصری ثالث مل کر ایک نئی جنگ بندی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے کچھ اور یرغمالوں کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے تباہ کن حملے کر رہا ہے اور فلسطینی عسکریت پسند لڑنے کے عزم کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز اور اے پی سے لی گئیں ہیں)