ایران اور بھارت کے درمیان ثقافتی تعلقات کو گہرا کرنے کے ایک اہم اقدام میں، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے, جو تہران کے دورے پر ہیں، اعلان کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے تحت فارسی کو ہندوستان کی نو کلاسیکی زبانوں میں سے ایک کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
متعدد بھارتی نیوز نیٹ ورکس اور سوشل میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، ایس جے شنکر نے ایران اور بھارت کے درمیان ثقافتی، ادبی اور لسانی روابط کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، “حکومت نے فارسی کو بھارت کی نو کلاسیکی زبانوں میں سے ایک کے طور پر ہماری نئی تعلیمی پالیسی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
ایس جے شنکرنے، جو ایران کے دو روزہ دورے پر ہیں، پیر کو اپنے ایرانی ہم منصب ایچ امیر عبداللہیان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران یہ بات کہی۔
بقول ان کے یہ پہچان بھارت کے تعلیمی فریم ورک کے اندر فارسی کے بھرپور ورثے کی زیادہ سے زیادہ تفہیم اور تعریف کو فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
بھارت کی کلاسیکی زبانیں اور ان میں فارسی کی شمولیت
تمل ہندوستان کی پہلی زبان تھی جسے 2004 میں کلاسیکی زبان کا درجہ دیا گیا۔ سنسکرت، کنڑ، ملیالم، اور اوڈیا دیگر زبانیں ہیں جنہیں مرکزی حکومت نے ہندوستان میں کلاسیکی زبانیں قرار دیا ہے۔
ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی-2020 کے مطابق،ان کلاسیکی زبانوں کے علاوہ پالی، فارسی، اور پراکرت، اور ان کے ادبی ورثے کو بھی ان کی وسعت اور اور افزودگی کے لیے محفوظ کیا جانا چاہیے۔
بھارتی تاریخ اور ثقافت میں فارسی کی اہمیت
بھارت میں ماہرین مخطوطات، علما اور دانش وروں کا کہنا ہے کہ عربی و فارسی مخطوطات نہ صرف ملک کا عظیم قومی سرمایہ ہیں بلکہ مشترکہ تہذیب کے ناقابل تردید ثبوت بھی ہیں، اس لیے ان کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے اور اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
قومی مخطوطاتکی ایک ماہر پروفیسر دیپتی ترپاٹھی کا کہناہے کہ ہندوستان کی تاریخ فارسی زبان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان مخطوطات کو منظرِ عام پر لائے جانے سے ملک میں پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے گا۔
عربی و فارسی مخطوطات کے ماہر اور سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن میں طبی مخطوطات کے مشیر پروفیسر احمد اشفاق نے عربی و فارسی مخطوطات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھاکہ دنیا میں ساڑھے پندرہ لاکھ اسلامی مخطوطات ہیں اور ہندوستان عربی و فارسی مخطوطات کے نقطہٴ نظر سے ترکی اور ایران کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سارے نادر و نایاب مخطوطات مختلف مدارس، مساجد اور خانقاہوں میں موجود ہیں جنہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ علم اور معلومات کے نئے دروازے کھولے جا سکیں۔
ایک اور ماہر پروفیسر چندرشیکھر نے کہا کہ فارسی اور عربی مخطوطات کی دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ یہ ملک کا عظیم سرمایہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مخطوطات مشترکہ قومی ثقافت و ادب کے ناقابلِ تردید ثبوت بھی ہیں۔
بقول ان کے ملک میں ایک اندازے کے مطابق 50 سے 60 لاکھ مخطوطات ہیں۔ قومی مخطوطات مشن نے ان میں سے تقریباً 30 لاکھ کو اپنے ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا ہے۔ 15 لاکھ کے بارے میں اطلاع ہے اور 15 لاکھ کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔
ایران اور بھارتی وزرائے خارجہ کی ملاقات کے دیگر اہم موضوعات
میڈیا رپورٹس کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران، ایس جے شنکر اور امیر عبداللہیان نے اپنے دوطرفہ تعلقات کے سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں پر بات کی اور سفارتی مصروفیات کی کثیر جہتی نوعیت پر زور دیا۔
وزیر خارجہ نے کہا، “وزیر خارجہ اور میں نے خاص طور پر اس کے سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی، لیکن قدرتی طور پر اس کے علاوہ دیگر ڈومینز بھی تھے،” وزیر خارجہ نے کہا۔ وزراء نے عوام سے عوام کے رابطوں کی مضبوطی اور گہرے ثقافتی، ادبی اور لسانی رشتوں کو تسلیم کیا جو دونوں قوموں کو متحد کرتے ہیں۔
“ہمارے عوام سے عوام کے روابط ایک طویل عرصے سے ایک طاقت رہے ہیں۔ ایران اور ہندوستان ہمارے گہرے ثقافتی، ادبی اور لسانی رشتوں کی وجہ سے متحد ہیں، جو سیاحوں، طلباء، فنکاروں، کھلاڑیوں اور اسکالرز کے تبادلے میں اضافے کے لیے ایک منفرد بنیاد بناتے ہیں۔
ایس جے شنکر نے کہا، “ہم نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ہم اپنے ثقافتی اور تعلیمی اداروں کو کس طرح بہتر طریقے سے جوڑ سکتے ہیں،” ۔
بھارت اور ایران میں مختلف شعبوں میں تعاون میں اضافہ
علاقائی رابطے کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے، مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے امکانات پر زور دیتے ہوئے، ایس جے شنکر نے وسطی ایشیا، افغانستان اور یوریشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایران کی اسٹریٹجک جغرافیائی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے میں بھارت کی دلچسپی کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا “علاقائی رابطہ بھارت ایران تعلقات کا ایک کلیدی ستون رہا ہے جو قدرتی طور پر آج کی بات چیت کے ایجنڈے میں نمایاں تھا۔ میں نے وسطی ایشیا، افغانستان اور یوریشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایران کی منفرد جغرافیائی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے میں بھارتی دلچسپی کا اعادہ کیا۔”